’ نوٹ بندی ‘ کو تین سال گزر چکے ہیں۔ 8 نومبر 2016 کو وزیراعظم مودی نے نیشنل ٹی وی چیانل پر 500 روپئے اور 1,000 روپئے کے کرنسی نوٹوں کو منسوخ کرتے ہوئے نئے کرنسی نوٹ بشمول 2,000 روپئے کو متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان کئی طرح سے حیران کن تھا۔ سب سے پہلے ماضی میں کبھی وزیراعظم نے کرنسی نوٹوں کے تعلق سے اس طرح قوم سے خطاب نہیں کیا تھا۔ یہ کام ریزرو بینک آف انڈیا کا ہوتا ہے جو سرکاری بیان کے ذریعے اپنے اقدامات سے قوم کو واقف کراتا ہے۔ دوم، وزیراعظم مودی نے نوٹ بندی کے تعلق سے ایسی رازداری برتی کہ ماضی میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ انھوں نے نہ مرکزی کابینہ کو اعتماد میں لیا، نہ آر بی آئی کو باضابطہ واقف کرایا اور نہ اپنے وزیر فینانس (آنجہانی) ارون جیٹلی کو باخبر رکھا تھا۔ 


ایسے عجیب و غریب حالات میں وزیراعظم نے قوم بالخصوص غریبوں اور متوسط طبقے پر ’معاشی بم‘ گرانے کی جو وجوہات بیان کیں، وہ صرف دو تھیں: جعلی کرنسی نوٹوں کا سدباب اور دہشت گردی کیلئے فنڈنگ کو روکنا۔ دونوں مقاصد کی جلد ہی قلعی کھل گئی جب 2,000 روپئے کے نئے کرنسی نوٹوں کے ڈھیروں بنڈل ملک کے مختلف حصوں میں ضبط کئے گئے۔ یہ اصلی تھے یا جعلی، لوگوں کے ہاتھوں میں کہاں سے آگئے، آج تک صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کا دہشت گردی سے مطلب بلامبالغہ کشمیر سے ہوتا ہے۔ حالیہ 5 اگست کو آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور ریاست جموں و کشمیر کی دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کے بعد وادی کشمیر کو فوجی چھاونی میں تبدیل کرنے سے قبل تک وہاں دہشت گردی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ 


چنانچہ مرکزی حکومت وقفے وقفے سے نوٹ بندی کے مقاصد تبدیل کرنے لگی۔ کبھی اس نے کہا کہ یہ اقدام کیاشلیس اکنامی کو فروغ دینے کیلئے کیا گیا تاکہ رقم ساتھ رکھنے کا جوکھم گھٹ جائے اور کاغذ کی بچت بھی ہوجائے۔ کیاشلیس اکنامی یعنی مختلف نوعیت کے کارڈز کے ذریعے مالی لین دین کرنا، جیسے ڈیبٹ کارڈ، کریڈٹ کارڈ وغیرہ۔ اس پر عمل درآمد کے کئی تقاضے ہیں، جس کا ابھی پورا ملک بالخصوص دیہی علاقے ہرگز متحمل نہیں ہیں۔ مودی حکومت نے اس پہلو کو یکسر نظرانداز کردیا۔ دراصل وہ تو نوٹ بندی کے احمقانہ اقدام کا کسی طرح جواز ڈھونڈنے میں سرگرداں رہی، ایسی صورتحال میں اس سے چوک ہونا لازمی تھا۔


گزشتہ روز نوٹ بندی کے تین سال کی تکمیل پر کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اسے ’دہشت گرد حملہ‘ سے تعبیر کیا جس نے معیشت کو تباہ کیا، کئی جانیں لیں۔ اپوزیشن پارٹی نے اس موقع پر اقتدار پر موجود عناصر کی ’خاموشی‘ پر سوال اٹھایا۔ راہول نے کہا کہ نوٹ بندی کے نتیجے میں لاکھوں چھوٹے کاروبار ختم ہوگئے اور کروڑوں ہندوستانی بے روزگار ہوئے۔ اس ’شرپسند حملہ‘ کے پس پردہ کارفرما عناصر کو ہنوز کیفرکردار تک پہنچانا باقی ہے۔ پرینکا گاندھی نے بھی ٹوئٹ میں مودی حکومت پر تنقید میں دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی ’تمام خرابیوں کی جڑ‘ ہے اور کہا کہ یہ ’تباہی‘ ثابت ہوا جس نے معیشت کو برباد کیا ہے۔ کانگریس کے ترجمان اعلیٰ رندیپ سرجے والا نے کہا کہ تین سال بعد بھی ملک پریشان ہے کیونکہ معیشت بکھری ہوئی ہے، روزگار کھوگیا ہے۔ نہ دہشت گردی رکی، نہ جعلی نوٹوں کا کاروبار رکا ہے۔ اس کیلئے کون ذمہ دار ہیں؟


کانگریس نے اپنے آفیشل سوئٹر ہینڈل سے بھی کئی ٹوئٹس پوسٹ کرتے ہوئے حکومت پر نوٹ بندی کیلئے لفظی حملہ کیا۔ پارٹی نے سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا کہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی حکومت نے ایسا فیصلہ نہیں کیا تھا جو معیشت پر ایسے تباہ کن اثر کا سبب بنا جیسے نوٹ بندی بنا ہے۔ نوٹ بندی کے ظاہری فوائد میں ایک یہ رہا کہ جعلی کرنسی کا صفایا ہوگا۔ بی جے پی کو یہ جان کر شاید تعجب ہو کہ جعلی کرنسی اس تباہی کے ایک سال کے اندرون دوگنی ہوگئی۔ کانگریس نے اپنے ٹوئٹس ہیاش ٹیگ ’ نوٹ بندی سے مندی تک‘ استعمال کرتے ہوئے پوسٹ کئے ہیں۔ یوتھ کانگریس کے کارکنوں نے ریزرو بینک آف انڈیا کے دفتر واقع نئی دہلی کے باہر مظاہرہ کا اہتمام کرتے ہوئے مودی حکومت کی نوٹ بندی پر عمل آوری کو ہدف تنقید بنایا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: