عراق میں صدام حسین دورِ حکمرانی کے بعد دیڑھ دہے سے جاری شیعہ حکومت اس پورے عرصے میں مختلف نوعیت کے مسائل میں گھری رہی، لیکن اب حکومت کیلئے خود شیعہ شہریوں کا ایجی ٹیشن مہلک ثابت ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ چار عراقی ایم پیز بڑے پیمانے پر احتجاجوں کے پیش نظر مستعفی ہوجانے سے وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی پریشانیوں سے دوچار حکومت سیاسی محاذ پر بھی گھیری جارہی ہے۔ تقریباً ایک ماہ سے جاری احتجاجی جلسوں، جلوسوں نے برسراقتدار حکومت میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کا مطالبہ کرتے ہوئے عراق کو دہلا رکھا ہے، کیونکہ شیعہ احتجاجی فائرنگ، آنسو گیس اور دیگر تشدد کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ابھی تک زائد 200 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ 


پارلیمنٹ کے صرف دو کمیونسٹ قانون ساز راعد فہمی اور حائفہ ال امین نے ” پُرامن، عوامی تحریک کی حمایت میں “ پارلیمان سے استعفا دے دیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ جاریہ ایجی ٹیشن اور اسے کچلنے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں، وہی ان کے استعفے کی وجہ ہے۔ 27 دنوں میں پارلیمنٹ کچھ نہیں کرپائی۔ وہ سکیورٹی فورسیس کی جانب سے اپنے اختیارات کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر وزیراعظم کو جوابدہ بنا سکی، نہ ہی وزیر داخلہ سے بازپرس کی گئی۔ انھوں نے حکومت سے مستعفی ہوجانے اور جلد از جلد انتخابات نئے ووٹنگ سسٹم کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دو دیگر قانون ساز طہٰ ال دفاعی اور موظاحم ال تمیمی بھی اتوار کو مستعفی ہوگئے۔ یہ دونوں کا تعلق سابق وزیراعظم حیدر ال عبادی کے حامیوں سے ہے۔ یکم اکٹوبر کو احتجاج شروع ہونے کے بعد سے 329 نشستی پارلیمان بحران سے دوچار ہے۔ شعلہ بیان عالم مقتدا الصدر نے بھی حکومت کے استعفے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں عاجلانہ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔


عراق قدیم خطہ ہے اور سلطنت متحدہ ( برطانیہ ) کے دورِ عروج میں یہ بھی انگریزوں کے تسلط میں آیا۔ 3 اکٹوبر 1932 کو آزادی پر سلطنت عراق کی تشکیل ہوئی، جسے 14 جولائی 1958 کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔ وہاں موجودہ دستور 15 اکٹوبر 2005 سے نافذ العمل ہے۔ عراق کی پونے چار کروڑ کی آبادی ( 2016 کا تخمینہ ) میں 24 ملین (دو کروڑ چالیس لاکھ) عرب ہیں، جن میں سے 15 ملین شیعہ اور 9 ملین سنی ہیں۔ بقیہ آبادی تقریباً ایک درجن نسلی گروپوں پر مشتمل ہے۔ لہٰذا، عراق کو شیعہ اکثریتی ملک کہا جاسکتا ہے۔ تاہم، وہاں کئی دہوں تک سنی صدام حسین کی حکمرانی رہی ، جس کا اختتام رواں صدی کے اوائل میں جارج ڈبلیو بش کی سرکردگی میں امریکہ زیرقیادت حملے نے کردیا اور سب سے بڑے و طاقتور پڑوسی شیعہ ملک ایران کی تائید و حمایت سے بغداد میں شیعہ حکومت قائم ہوگئی۔ پھر صدام حسین کو ڈسمبر 2006 میں پھانسی کے ذریعے اِس دنیا سے ہی رخصت کردیا گیا۔


بتایا جاتا ہے کہ ڈکٹیٹرشپ طرز کی حکمرانی کے ذریعے صدام نے عراقی عوام بالخصوص اقلیتوں سے ناانصافیاں کئے۔ یہ تو عراق کا داخلی معاملہ ہوا، لیکن جب انھوں نے 1990 میں کویت پر قبضہ کیا تو عالمی سطح پر وہ اپنی شبیہہ اس قدر بگاڑ گئے کہ دنیا بالخصوص امریکہ کو عراق میں عام تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا پروپگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا اور آخرکار ایک دہے بعد وہ خود اپنوں کی دغابازی کا شکار ہوکر پہلے اقتدار سے محروم ہوئے، پھر جان سے گئے۔ صدام نے اپنے علاوہ کسی سنی لیڈر کو ابھرنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا کہ وہ مابعد صدام سیاسی قیادت کرپائے۔ چنانچہ فطری متبادل شیعہ حکومت قائم ہوگئی۔ 

---

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: