ٹی ایس آر ٹی سی کے ملازمین نے 41 روزہ غیرمعینہ مدت کی ہڑتال کے بعد ریاستی حکومت کے انضمام کے اپنے مطالبے کو ’فی الحال‘ ترک کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ 5 اکٹوبر کو ہڑتال کی شروعات کے بعد سے تلنگانہ کے مختلف حصوں میں پانچ آر ٹی سی ملازمین نے مبینہ طور پر خودکشی کرلی، جب کہ بعض دیگر نے اپنے جانیں لینے کی کوششیں کئے ہیں۔ اس دوران چندرشیکھر راو کی ٹی آر ایس حکومت بدستور اپنے موقف پر اٹل ہے اور وقفے وقفے سے ہڑتالی ملازمین عملاً ’ دھونس ‘ جماتے ہوئے ان کو کام پر رجوع ہوجانے کی ’ دھمکی ‘ دیتی رہی ہے۔ ہائی کورٹ نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو بعض ہدایات دیئے ہیں۔ پھر بھی مسئلہ جوں کا توں برقرار رہے، جس سے آر ٹی سی ملازمین کو راست اور عوام کو بالواسطہ نقصان پہنچ رہا ہے۔


اس کی فکر کرنے کے بجائے ٹی آر ایس پارٹی پارلیمنٹ کے 18 نومبر کو شروع ہونے والے سرمائی اجلاس کے دوران تلنگانہ آر ٹی سی ہڑتال کا مسئلہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ادھر چیف منسٹر کا تکبر دیکھئے کہ وہ عوامی خدمت گزار اعلیٰ ہونے کے باوجود عوام تو دور کی بات ملازمین کے قائدین سے تک بات چیت کرنا عار سمجھ رہے ہیں۔ ’ مرتے کیا نہ کرتے ‘کے مصداق ٹرانسپورٹ اسٹاف نے ہفتہ 16 نومبر کو بند کی ہڑتال کی اپیل کردی ہے۔ اس کے جواب میں ٹی آر ایس حکومت نے حیدرآباد پولیس کے ذریعے ضابطہ فوجداری کا سیکشن 144 لاگو کردیا ہے، جس کے تحت کسی علاقہ میں 4 افراد سے زیادہ کا جمع ہونا ممنوع ہوتا ہے۔ یہ سیکشن ہر بس ڈپو اور بس بھون کے اطراف 500 میٹر کے حدود میں لاگو رہے گا۔


کمشنر پولیس حیدرآباد انجنی کمار کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کے بس روکو پروگراموں کی اجازت دی جائے تو کئی کاروباری و تجارتی سرگرمیاں اور تعلیمی مصروفیات میں خلل پڑے گا۔ چنانچہ اس امتناعی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی فرد کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ کمشنر پولیس نے درست کہا کہ بس روکو پروگراموں سے تجارتی و تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں گی، مگر یہی بات 5 اکٹوبر سے حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ عوام اور 48,000 ملازمین کی فیملیوں کو کتنا نقصان ہورہا ہے، کیا ٹی آر ایس حکومت اس کا اندازہ کرپا رہی ہے؟ ہڑتالی فریق کی طرف سے اپنے مطالبات میں نرمی کا اشارہ ملنے کے باوجود حکومت کی ہٹ دھرمی ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔


حکومت کے ساتھ انضمام کا بڑا مطالبہ سردست ترک کردینے کے بعد ملازمین نے اب ان کے دیگر مطالبات کی تکمیل کی خواہش کی ہے۔ ویسے تو ان کے کئی مطالبات ہیں لیکن ان میں تنخواہ پر نظرثانی نمایاں ہے۔ تاہم، کے سی آر حکومت کے ارادے کچھ اور ہی معلوم ہوتے ہیں۔ شاید انھیں اس معاملے میں مرکز کی طرف سے تائید و حمایت حاصل ہونے کی توقع ہے۔ چنانچہ وہ متبادل بسوں کا انتظام کرا رہے ہیں۔ بعض متبادل ڈرائیوروں کی خدمات پہلے ہی حاصل کی جاچکی ہیں۔ پیشہ ور ڈرائیوروں کے مقابل اس طرح کے انتظامات کے نتائج اچھے نکلنا ضروری نہیں۔ جوکھم درپیش رہتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ کے سی آر حکومت پورے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کو ہی خانگی شعبے کے حوالے کرتے ہوئے جھنجھٹ سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہیں؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: