آنکھیں مخلوق کو خالق کی عطا کردہ نہایت اہم نعمتوں میں سے ہے۔ مخلوقات کا آنکھوں یعنی بینائی سے محرومی پر کیا ہوتا ہے، وہ شاید ہم اتنا اچھی طرح نہیں سمجھ پائیں گے، جتناانسانی زندگی کے ذاتی یا ہمارے آس پاس کے تجربے سے سمجھ سکتے ہیں۔ دل کام کرنا بند کردے تو وہ انسان زندہ نہیں رہتا۔ دماغ مفلوج ہوجائے تو ضروری نہیں کہ انسان مرجائے۔ تاہم، دل اور دماغ صحت مند رہتے ہوئے آنکھیں یا کم از کم بینائی ہی چلی جائے تو انسان جیتے جی عملاً مرجاتا ہے۔ پلیز نوٹ کیجئے کہ میں نے آنکھیں یا بینائی چلے جانے کی بات کہی ہے یعنی پیدائشی نابینا کا تذکرہ نہیں کررہا ہوں۔ جو حس انسانی پیدائشی طور پر عطا نہ کی گئی ہو، اسے اللہ تعالیٰ اکثر و بیشتر کوئی اور حس میں برتر بنادیتے ہیں۔

 

”تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے....“ یہ 1969 کی بالی ووڈ فلم ”چراغ“ کا بہت مشہور گیت ہے۔ وہ دَور آشا پاریکھ کا تھا۔ یہ فلم میں ان کے ساتھ سنیل دت نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مجروح سلطان پوری کے قلم کو مدن موہن نے موسیقی ریز بنایا۔ اسے محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے الگ الگ گایا، جسے سنیل دت اور آشا پاریکھ پر فلمایا گیا۔ 50 سال قبل کی اس فلم کا مرکزی موضوع ٹائٹل ’چراغ‘ یعنی ’وارث‘ اور ”آنکھوں (بینائی) سے محرومی کے بعد کی زندگی“ہے۔ 

 

سنیل دت اور آشا پاریکھ کی دونوں خاندانوں کی رضامندی سے بڑی خوشیوں کے ساتھ شادی ہوتی ہے۔ آشاجی کی ساس للیتا پوار کو خاندان کے وارث کا بے چینی سے انتظار ہے۔ تاہم، اس میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔ اس درمیان آشاجی حادثے میں اپنی بینائی سے محروم ہوکر اپنی زندگی کے کام کاج سے مفلوج ہوکر شوہر پر پوری طرح منحصر ہوجاتی ہیں۔ ساس سے مزید برداشت نہیں ہوتا، اور وہ اپنی بہو کو گھر چھوڑ دینے کیلئے کہتی ہیں، تاکہ بیٹے کی دوسری شادی رچائی جائے۔ اس پر فیملی میں بھونچال آجاتا ہے۔

 

ایسا نہیں کہ انسان کو صحت مند و مکمل پیدائش کے بعد صرف دل، دماغ اور آنکھوں سے محرومی پر ہی پریشانی ہوتی ہے۔ خالق نے بدن کے ہر عضو (حصہ) کو قیمتی اور مفید بنایا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ دل، دماغ اور آنکھوں کے سلامت رہتے ہوئے انسان پھر بھی دوسروں پر اتنا زیادہ ’ڈیپنڈ‘ نہیں ہوجاتا، جتنا دل و دماغ کے بعد آنکھوں یعنی بینائی سے محرومی پر ہوتا ہے۔ آج کے سائنس و ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ دور میں لگ بھگ ہر انسانی عضو کا ’ٹرانسپلانٹیشن‘ ہورہا ہے۔ تاہم، مشکل یہ ہے کہ یہ ’سلیوشن‘ مریض کی صحت اور عمر کے ساتھ مربوط ہے۔ میں گواہ ہوں کہ اندرون 50 سال کا شخص آناً فاناً بینائی سے محروم ہوگیا۔ اسے صحت کے بعض مسائل جیسے شوگر وغیرہ پہلے سے لاحق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ علاج کے ذریعے بینائی واپس لانے کی کوشش تو دور کی بات ہے، وہ ٹرانسپلانٹیشن کے ’آپشن‘ کو بھی اختیار نہیں کرسکتا ہے۔

 

گزشتہ دنوں ’سب ٹی وی ‘ چیانل کے مشہور فیملی شو ”تارک مہتا کا اُلٹا چشمہ“ کے ایک ایپی سوڈ پر میری نظر پڑی۔ اس میں ”آنکھیں یعنی بینائی“ کو مرکزی موضوع بناکر بچوں نے عمدگی سے ناظرین تک پیام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مذہب، ذات، نسل، جنس، سماجی حیثیت سے قطع نظر ”آنکھوں“ کا معاملہ ہر انسان کیلئے نہایت اہم ہے۔ آپ نے بھی غور کیا ہوگا کہ اگر بچوں کو عینک لگانا پڑجائے تو والدین وغیرہ کچھ افسوس ہوتا ہے کہ اس میں فلاں وٹامن کی کمی سے یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اگر قدرتی طور پر وٹامن کے اعتبار سے اس بچہ یا بچی میں بہتری نہ آئی تو پتہ نہیں بڑی عمر تک عینک کا نمبر کس حد تک چلا جائے گا؟

 

اس کے برخلاف موجودہ دَور میں 40 سال کے آس پاس لوگوں کو عینک کے استعمال پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ کمپیوٹر، موبائل ، وغیرہ کا استعمال کم تو کبھی ہونے والا نہیں۔ اس لئے بالغ افراد کو عینک کی حاجت کی عمر میں دھیرے دھیرے کمی آسکتی ہے۔ یعنی کچھ دہوں بعد خاصے صحت مند افراد کو بھی 35 سال میں عینک یا ’کنٹاکٹ لینس‘ کا استعمال ضروری ہوجائے گا۔ میں آج بھی 60، 65 بلکہ 70 سال سے زیادہ عمر والوں کو دیکھتا ہوں تو رشک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کیلئے اس قیمتی نعمت کو قائم رکھے اور بقیہ لوگوں پر بھی رحم و کرم فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: