سنکرانتی کے تہوار کا موقع ہے۔ دیش میں ہر طرف آسمان میں پتنگیں دکھائی دے رہی ہیں۔ گزشتہ روز مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو اپنی آبائی ریاست گجرات کے احمدآباد میں کافی تعداد میں اپنے حامیوں کے ساتھ پتنگ بازی سے محظوظ ہوتے دیکھا۔ اچھا لگا۔ زندگی میں کبھی خوشی کبھی غم ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔ قدرت کا عجیب رواج ہے کہ ہمہ وقت وہ کسی کو خوشی کا موقع دیتا ہے تو اسی وقت کہیں اور غم و اندوہ کا ماحول برپا رہتا ہے۔ یعنی تہوار کا موقع ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری قوم بس خوشی ہی منا رہی ہے، کسی کو کوئی غم نہیں۔

 

گزشتہ روز منگل کی ہی کی بات ہے ایک طرف امیت شاہ پتنگ بازی میں مصروف تھے، اور وہیں سے چند سو کیلومیٹر دور ممبئی میں بالی ووڈ کے لجنڈ راجکپور کی بیٹی ریتو نندہ کا دیہانت ہوگیا۔ دیکھئے، قدرت نے یکساں تہوار کے موقع پر کسی کو خوشی منانے کا موقع فراہم کیا اور کسی کو غم میں ڈبو دیا۔ بہرحال یہ کوئی نئی بات ہرگز نہیں۔ مذکورہ بالا مثال تو محض دو قریبی شہروں میں موجود مشہور شخصیتوں کی ہیں۔ اگر آپ سارے ملک کا جائزہ لینے لگیں تو آپ کو بہ یک وقت خوشی اور غم کی انبوہ مثالیں مل جائیں گی۔ اسی کو وسعت دیتے ہوئے دنیا بھر میں دیکھیں تو آپ کیلئے شمار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ 

 

خوشی اور غم کے بارے میں چند سطور لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ انڈیا گزشتہ چھ سات ماہ سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ تین طلاق کے قانون کے ذریعے مودی حکومت نے مسلمانوں کے شرعی قانون میں مداخلت کی، مسلمان خاموش رہے۔ متنازع بابری مسجد اراضی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے عجیب فیصلے کے ذریعے متنازع اراضی ہندو فریق کے حوالے کردی اور مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل کردیا، مسلمان خاموش رہے۔ کشمیر سے متعلق اہم دستوری آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے پوری سیاسی قید کو عملاً قید کردیا، وادی¿ کشمیر میں عوام کو بیرونی دنیا سے منقطع کردیا، ان کے سینکڑوں بچے بیرون ریاست تعلیم پارہے ہیں، ان کو کرب میں مبتلا کردیا، مجموعی طور پر مودی حکومت نے کشمیریوں کا جینا حرام کررکھا ہے ، مسلمان پھر بھی خاموش رہے۔

 

پھر ڈسمبر میں یکایک شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے اندرون 72 گھنٹے اسے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) بناکر این پی آر بہ شکل این آر سی (نیشنل پاپولیشن رجسٹر اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کے ذریعے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے بلکہ ان کو دوسرے درجہ کا شہری بناتے ہوئے ممکن ہوا تو اندرون ملک ہلاک ہی کردینے یا پھر ملک بدر کرنے کے گھنا¶نے منصوبے پر عمل شروع کردیا گیا۔ یہ مسلمانوں کیلئے پانی سر سے اونچا ہوجانے والی بات ہوئی۔ ان کیلئے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرنا ضروری ہوگیا۔ ویسے تو یہ احتجاج تین طلاق قانون نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی ہوجانا چاہئے تھا مگر دیر آئے درست آئے۔

 

ملک کے ایسے حالات کے باوجود بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم مودی عجیب دنیا میں جیتے ہیں۔ گزشتہ روز انھوں نے کہا کہ ملک بڑی تیز رفتاری سے ترقی کررہا ہے مگر حکومت کو واویلا مچاکر اپوزیشن بدنام کررہی ہے۔ وزیراعظم شہریوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ سال میں پانچ سات سفر ملکی سیاحت کیلئے تو ہونے چاہئیں۔ شاید ان کی عقل یہ باتیں سمجھنے سے عاری ہیں کہ معیشت جی ڈی پی کی اندرون 5 فیصد کی بدترین شرح کے ساتھ ہچکولے کھا رہی ہے۔ نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ بینکوں پر سے اعتبار ختم ہورہا ہے، بلکہ آر بی آئی کو بھی حکومت نے بے بس ادارہ بنا دیا ہے۔ مہنگائی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی عصمت کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ مرکزی وزراءاور برسراقتدار پارٹی کے قائدین مسلمانوں کو کتے بلی سے تشبیہہ دیتے ہوئے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اترپردیش میں اعلیٰ پولیس افسران مسلمانوں پر غرا رہے ہیں کہ پاکستان چلے جاو ۔ کیا ایسے میں لوگ سیر سپاٹے کرسکتے ہیں؟

 

مرکزی حکومت ہو کہ کسی ریاست میں بی جے پی زیراقتدار حکمرانی ہو، ہندوستان اتنا بڑا ملک ہے اور مسلمان چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ جہاں غالب ہو اقلیتوں پر ظلم کروگے، لیکن بھولو مت کہ ملک کے بیشتر حصوں میںاب آپ برسراقتدار نہیں اور کئی حصوں میں اقلیتوں کو غلبہ حاصل ہے۔ ایسے ٹکراو سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟ دنیا نے ابھی انڈیا پر موجودہ حالات کے سبب تھوکنا شروع کیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہندوستان کا حشر یو ایس ایس آر جیسا ہوجائے؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: