سپریم کورٹ نے منگل کو کچھ عجیب رولنگ میں گجرات فسادات 2002 کے کیس میں عمر قید کی سزا بھگت رہے 17 کے منجملہ 15 مجرمین کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ افراد 2002 کے گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں پیش آئے قتل عام کے دوران پر سردارپورہ میں 33 دیہاتیوں کو زندہ جلانے کے الزام میں مجرم قرار دیئے گئے۔ عدالت عظمیٰ نے ان مجرمین سے کہا کہ وہ سماجی اور روحانی خدمات انجام دیں۔ تاہم، یہ بھی رولنگ دی کہ وہ گجرات سے باہر رہیں۔ضمانت پر رہا کئے جانے والے مجرمین کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کو مدھیہ پردیش میں اندور کو بھیجاجائے گا جبکہ دوسرا گروپ 500 کیلومیٹر دور جبلپور کو روانہ کیا جائے گا۔

 

جیل میں قید کسی سزایافتہ مجرم کو ضمانت عطا کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کم از کم ایک حوالہ میرے پاس ہے۔ 2010 میں رائے پور سیشنس کورٹ، چھتیس گڑھ نے ایک ملزم کو غداری کا مرتکب قرار دیا تھا کیونکہ اس نے نکسلائٹس کی نٹ ورک قائم کرنے میں مدد کی تاکہ مملکت کے خلاف لڑائی کی جاسکے۔ اسے عمرقید کی سزا دی گئی۔ تاہم، 15 اپریل 2011 کو اسے سپریم کورٹ آف انڈیا نے ضمانت عطا کردی، اور اس حکمنامہ کیلئے کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔

 

مذکورہ بالا دونوں کیسوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ گجرات کے مجرمین نے 33 افراد کو زندہ جلایا ہے جبکہ چھتیس گڑھ کے کیس میں اسٹیٹ کے خلاف ممکنہ لڑائی کیلئے نکسلائٹس کو نٹ ورک قائم کرنے میں مدد کی گئی۔ مجرم کو اس معاملے میں کوئی قتل کا مرتکب قرار نہیں دیا گیا، جبکہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کی تین رکنی بنچ نے گجرات کے مجرمین کو ضمانت عطا کی ہے۔ چیف جسٹس کے پیشرو رنجن گوگوئی اپنی سبکدوشی سے عین متنازعہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی ملکیت کیس میں اسی طرح کا عجیب و غریب فیصلہ سنا گئے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اس طرح کے فیصلوں پر بے چینی کا ماحول ابھر رہا ہے۔

 

نکسلائٹس کو نٹ ورک قائم کرنے میں مدد پر غداری کا مرتکب قرار پانے والے عمر قید کے مجرم کو ضمانت پر کوئی وجہ بتائے بغیر رہا کردیا جاتا ہے۔ گجرات فسادات میں ایک دو نہیں 33 افراد کو زندہ جلادینے والے مجرمین کو ضمانت عطا کردی گئی ہے۔ یہ عجیب معاملات پیش آرہے ہیں۔ اس رجحان کے مطابق دیگر جرائم کے مرتکبین کو بھی اسی طرح سماجی خدمات انجام دینے کا حکم دیتے ہوئے ضمانت پر رہا کردینا چاہئے۔ 

 

نربھئے کیس کے چار مجرمین کو متاثرہ کے لواحقین کو پھانسی کا انتظار ہے اور مجرمین کے وکلاءاس میں تاخیر کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے جارہے ہیں۔ جب سپریم کورٹ خود گجرات کے مجرمین کی ضمانت پر رہائی کی مثال پیش کررہا ہے تو نربھئے کے مجرمین بھی اس طرح سپریم کورٹ سے ہمدردانہ رویہ کی درخواست کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے چھتیس گڑھ کے کیس میں وجہ بتائی اور نہ گجرات کے معاملے میں کوئی جواز پیش کیا ہے۔ نربھئے کیس میں چاروں مجرمین کو ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ صرف نربھئے کیوں، ملک کی ساری جیلوں سے مجرمین کو اخلاق کا درس دیتے ہوئے دوبارہ سماج میں گھسادیا جاسکتا ہے۔

 

یہ عدلیہ کی اعلیٰ ترین سطح پر خطرناک رجحان ہے۔ اس میں جزا اور سزا کا تصور ختم کیا جارہا ہے۔ تمام انسانوں سے مل کر سماج ملتا ہے۔ سماج میں انسان اچھے کام کرے تو امن و سکون کا ماحول رہتاہے اور جو کوئی سماج دشمن سرگرمی میں ملوث ہو، وہ امن و سکون کو غارت کرتی ہے۔ سماج میں انسان کو اچھے کام کیلئے انعام و ستائش ملتے ہیں اور خراب کام کیلئے سزا و دھتکار سہنا پڑتا ہے۔ جب عدلیہ ہی جزا اور سزا کا فرق ختم کردے تو سماج میں امن و سکون کس طرح قائم رہ سکے گا؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: