سپریم کورٹ نے شاہین باغ دہلی میں جہاں سی اے اے، این پی آر، این آر سی کے خلاف 15 ڈسمبر سے مسلسل احتجاج جاری ہے، گزشتہ دنوں ایک شیرخوار شدید سردی کے باعث فوت ہوجانے کا ازخود نوٹ لیا ہے۔ اور وضاحت طلب کی کہ احتجاج میں شیرخواروں اور بچوں کو کیوں کر شامل کیا گیا ہے۔ متوفی شیرخوار کے والدین عدالت کو معقول جواب دیں گے کہ ان کے پاس اپنی بھارتی حقوق کو لڑنے کیلئے شیرخوار کو ساتھ لے آنے کیلئے کوئی چارہ نہ تھا۔

 

چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی قیادت میں عدالت عظمیٰ نے اچھا کام کیا ہے۔ اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے لیکن مجھے دوہرے معیار پر اعتراض ہے۔ چند روز قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ایک ہٹا کٹا نوجوان سرعام اسٹوڈنٹ پر فائر کردیتا ہے اور بعد میں پولیس اور حکام بتاتے ہیں کہ وہ نابالغ یعنی 17 سالہ اسٹوڈنٹ ہے۔ تب سپریم کورٹ کو خیال نہیں آیا کہ نابالغ طالب علم کے ہاتھوں میں ہتھیار کیوں اور کیسے آیا، اور اس نے یونیورسٹی کیمپس میں پہنچ کر سرعام پولیس فورسیس کی موجودگی میں فائرنگ کرنے کی ہمت کیسے کی؟ اصولاً تو سپریم کورٹ کو اس واقعہ کا بھی نوٹ لینا چاہئے۔

 

عدالتوں کا ازخود نوٹ لینا دستور ہند کے آرٹیکل 32 سے تعلق رکھتا ہے۔ ملک میں پیش آئے کسی واقعہ یا کسی رجحان کے تعلق سے عدالتیں سوال اٹھا سکتی ہیں۔ عام طور پر ان کی معلومات کا اساس میڈیا رپورٹس ہوتے ہیں۔ میڈیا نے بلاشبہ شاہین باغ دہلی میں شیرخوار کی موت کی رپورٹ دی ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ نے تو 17 سالہ اسٹوڈنٹ کی یونیورسٹی میں فائرنگ کی اطلاع بھی دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا ازخود نوٹ نہیں لیا۔ 

 

سپریم کورٹ کا دوہرا معیار دیکھئے کہ جب سی اے اے کیخلاف احتجاجی عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوئے تب جسٹس بوبڈے کی بنچ نے ان کا کیس قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سڑکوں پر نکل آنا ہے تو عدالت سے رجوع مت ہونا۔بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ پھر کہا گیا کہ تشدد ہوگا تو عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔ ایک شیرخوار کی موت پر ’افسردہ‘ سپریم کورٹ کو یہ خیال نہیں کہ حکومت کے اقدام پر عوام بالخصوص مسلمانوں میں کس قدر اضطراب و بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ کیا یہ توجہ کا مستحق موضوع نہیں ہے؟

 

جسٹس بوبڈے کے پیشرو رنجن گوگوئی نے جاتے جاتے بابری مسجد کیس میں ایسا ”فیصلہ“ سنایا کہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر مانا کہ 1992 میں بابری مسجد کو ڈھانا مجرمانہ فعل ہوا مگر ساتھ ہی وہاں انہدام کے بعد والے موقف کو تسلیم بھی کرلیا۔ یعنی موجودہ عارضی مندر اور وہاں لارڈ رام کی پیدائش کو درست مان لیا۔ متنازع اراضی کی ملکیت ہندو فریق کے حوالے کردی اور بظاہر مظلوم مسلم فریق کو وہاں سے بے دخل کرتے ہوئے دور کہیں 5 ایکڑ اراضی متبادل مسجد کیلئے فراہم کرنے کی حکومت کو ہدایت دی۔ 

 

گوگوئی کے فیصلہ کا پھر بھی مندر، مسجد اور اراضی کی ملکیت سے تعلق ہے۔ جسٹس بوبڈے کے سامنے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ پیش کیا جارہا ہے لیکن وہ کوئی اور مسائل میں الجھ رہے ہیں۔ اب تک ان کی مختصر میعاد میں نظر آگیا کہ وہ مودی حکومت سے ہرگز الجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ ایسا ہی رہا تو ان کی پوری میعاد میں وہ شاید گوگوئی کو پیچھے چھوڑ دیں گے؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: