دنیا بھر میں مہذب اور غیرمہذب سماج کس قدر تیزی سے جرائم و تشدد کو اپنا رہا ہے، کیسی کیسی درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اسے سوچنا اور پڑھنا ہی ہولناک معلوم ہوتا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھنے پر اعصاب پر جانے کتنا مضر اثر پڑے گا؟ ماضی بعید کی بات نہیں، دو دہے قبل تک جرائم کی شرح اتنی تشویشناک حد تک نہیں تھی، جتنی آج دنیا بھر میں ہر بڑے چھوٹے شہر اور ٹاون حتیٰ کہ قصبات میں بڑھتی جارہی ہے۔ انسان معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہوجانا، گھناونی حرکتیں کرنا.... یہ معمول بن گیا ہے۔ پتہ نہیں اس کی کیا وجوہات ہیں۔ ماہرین سماجیات کو اس موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے بیداری مہم چلانے کی ترغیب دینا چاہئے۔

 

چاقوزنی کے بارے میں سنا ہے لیکن اب اس کیلئے چاقو کی حاجت نہیں رہی۔ ایک شوہر نے اپنی جوان بیوی کو دن دہاڑے اسکرو ڈرائیور گھونپ دیا ہے۔ کہیں اور شوہر نے اپنی بیوی کو روایتی طریقہ سے ہی چاقوزنی کا شکار بنایا ہے۔ بوڑھے لوگ پوتی اور پڑپوتی کی عمر والی لڑکیوں کا ریپ کررہے ہیں۔ اس معاملے میں نوجوانوں کو تو جیسے انڈیا میں مہارت حاصل ہوگئی ہے۔ وہ تنہا نہیں بلکہ گینگ ریپ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ایک اور تبدیلی آئی ہے کہ بدحال شکار کو زندہ جلا دینے کا رواج چل پڑا ہے۔ جلانے کا سامان میسر نہیں ہوا تو کوئی بھی نوکیلی اور ٹھوس چیز سے اس کا قتل کیا جارہا ہے۔

 

ایک خاندان کے افراد بھی ایک دوسرے کو جائیداد و دیگر تنازعات پر قتل کرنے سے ہرگز گریز نہیں کررہے ہیں، حالانکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے بعد اِدھر ادھر دوڑنے کے بعد آخرکار ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی بقیہ زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ پھر بھی ڈھیٹ پن سے جرائم کئے جارہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی عقل وقفے وقفے سے ماوف ہونے لگی ہے۔ وہ جانور جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ اور تو اور عورتوں نے بھی جرائم کے معاملے میں کافی ”ترقی“ کرلی ہے۔ وہ ذرا سا پس و پیش کئے بغیر اپنے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو ٹھکانے لگا دیتی ہیں۔ 

 

ان پورے معاملوں میں ”انٹر کاسٹ“ اور ”انٹر ریلیجن“ شادیوں کا الگ چکر ہے۔ آج گھروں سے لے کر بازار تک ہر طرف بے حیائی کا دور دَورہ ہے۔ ایسے ماحول میں بچے اور بچیاں وقت سے پہلے وہ سب جان رہے ہیں جو انھیں کچھ عرصہ بعد جاننا چاہئے۔ اس کے لازمی نتیجے میں ان کی کم سنی گم ہورہی ہے، پڑھائی سے دھیان ہٹ رہا ہے اور وہ غلط راہ کی طرف چلنے لگے ہیں۔ جوانی میں عشق و عاشقی ہرگز غیرفطری بات نہیں، لیکن نئی نسل نے اس معاملے میں بھی سوجھ بوجھ اور عقل کا استعمال بند کردیا ہے۔ ایک کاسٹ والے کو دوسری کاسٹ والی پسند آتی ہے اور اس کا برعکس۔ اسی طرح ایک مذہب والے کو دوسرے مذہب والی پسند آتی ہے اور اس کے برعکس۔ ایسے عشق و محبت دو چار سال میں ہوا ہوجاتے ہیں لیکن خاندانوں کے بڑوں کو ٹھیس پہنچا جاتے ہیں۔ اکثر و بیشتر دونوں خاندانوں میں ٹھن جاتی ہے۔ معاملہ تشدد کی شکل بھی اختیار کرتا ہے۔

 

معاشرہ کا یہ حال دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ معاشرہ 100 فیصدی ایسا ہوگیا ہے۔ یہ دنیا کہیں نہ کہیں اچھے لوگوں کی وجہ سے قائم رکھی جاتی ہے۔ جب وہ نہ رہیں گے تو میں سمجھتا ہوں، اوپر والا دنیا کی آزمائش ہی ختم کرڈالے گا۔ تاہم، سماج میں بگاڑ سے خوف کھا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں جاسکتا۔ صرف حکومتوں پر اس کی ذمہ داری ڈال دینا بھی ٹھیک نہیں۔ حکومت کے لوگ ہمارے معاشرے کے ہی منتخب لوگ ہوتے ہیں۔ اس لئے ہر شہری اور ہر سوسائٹی کا فرض ہے کہ جرائم اور تشدد میں اضافے کے رجحان کو روکنے کے جتن کریں۔ محلہ کی سطح پر متعلقہ ذی شعور افراد کے مابین غوروخوض ہونا چاہئے۔ کوئی حکمت عملی طے کرنا ضروری ہے۔ حکومت کو انصاف رسانی کی رفتار بڑھانے پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ نربھئے کیس کے مجرمین کو پھانسی پر عمل آوری کا معاملہ مذاق بن چکا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ قوانین میں ضروری ترامیم کرتے ہوئے گھناونے جرائم پر جلد از جلد سخت سے سخت سزا کو یقینی بنانا چاہئے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: