گزشتہ سال 12 ڈسمبر کو شہریت (ترمیمی) بل ترمیم شدہ قانون شہریت (سی اے اے) بن جانے کے بعد ملک بھر میں منظم انداز میں جاری احتجاجوں کو گزشتہ اتوار کو کرناٹک میں خود مسلم لیڈر کی زبان نے کاری ضرب لگائی۔ مہاراشٹرا میں ممبئی کے مجلسی لیڈر وارث پٹھان نے کلبرگی (گلبرگہ) میں مخالف سی اے اے، این آر سی، این پی آر ریلی سے خطاب میں کہا کہ مسلمان کسی بھی قانون سے ڈرنے والے نہیں، بلکہ 15 کروڑ مسلمان 100 کروڑ پر بھاری ہیں۔ یہ بالکلیہ غیرضروری اور بے تکی لفاظی ہوئی۔ دو ماہ سے پورا ملک گواہ ہے کہ مودی۔ شاہ حکومت کے شہریت (ترمیمی) قانون نے جس میں بنیادی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، ہندو۔ مسلم اتحاد کا احیاءکیا جو جدوجہد اور تحریک آزادی کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔

 

مودی۔ شاہ حکومت نے سی اے اے کے دائرے میں مسلمانوں کو شامل نہ کرتے ہوئے انھیں بھلے ہی اکثریتی ہندو برادری اور دیگر اقلیتوں سے بدظن کرنا چاہا، لیکن زائد از دو ماہ سے شاہین باغ دہلی میں جاری احتجاج ثبوت ہے کہ مسلمانوں کے آزمائشی وقت میں نہ صرف ہندو اور سکھ بلکہ دیگر برادریوں کے قابل لحاظ ارکان بھی آگے آئے ہیں۔ اَن پڑھ اور جاہل عناصر ہی سمجھتے ہیں کہ سی اے اے صرف مسلمانوں کیلئے مصیبت ہوسکتا ہے۔ درحقیقت، یہ پوری آبادی کو ”سرکاری بلیک میل“ کرنے کا ”سیاسی و حکومتی ہتھیار “ ثابت ہوسکتا ہے، جو فی الحال مودی۔ شاہ حکومت کو دستیاب ہے۔

 

اس پس منظر میں ہندو۔ مسلم ٹکراو یا لڑائی کی بات کرنا احمقانہ اور بچکانہ پن نہیں تو اور کیا ہوگا۔ پٹھان نے کیا سمجھ کر ’ہندووں ‘ کا نام لئے بغیر انھیں چیلنج کیا ہے۔ کیا بھارت میں ماضی کے دور کا کوئی میدان جنگ سجا ہے؟ یا وہ اپنے سینئر لیڈر کے ”15 منٹ“ والے اشتعال انگیز ریمارک سے کافی متاثر ہیں؟ مجلس اپنے ہیڈکوارٹر حیدرآباد میں پہلے ہی مخالف سی اے اے، این آر سی، این پی آر احتجاج کا کماحقہ ساتھ نہ دیتے ہوئے مسلمانوں کی مخالفت مول لے رہی ہے۔ پھر بھی مروت کیلئے مشہور حیدرآبادی درگزر سے کام لے رہے ہیں۔ اب مراٹھا سرزمین کے مجلسی لیڈر کا بیان دانستہ ہے تو اس کا مقصد احتجاجی مہم کو ”پنکچر“ کرنے کے سواءاور کچھ نہیں۔ 16 فبروری کو نادانستگی میں زبانی لغزش ہوگئی تو اب تک انھیں اپنے بیان کیلئے معذرت خواہی کرلینا چاہئے تھا۔

 

کرناٹک میں اندرون چار یوم مجلسی قائدین کا دو مرتبہ متنازع ایونٹ کا حصہ بننا بھی عجب ہے۔ گزشتہ روز بنگلورو میں اینٹی سی اے اے، این آر سی، این پی آر جلسہ میں صدر مجلس اسد الدین اویسی بھی شریک ہوئے۔ آرگنائزرس نے امولیا لیونا کو مائیک پر اظہار خیال کیلئے مدعو کیا۔ وہ مقامی فرد ہے، چنانچہ منتظمین کو اس کے بارے میں معقول جانکاری ہونے کی توقع رکھنا غلط نہیں۔ تاہم، لیونا نے مائیک سنبھالتے ہی جو حرکت کی وہ نہایت عجیب ہے۔ لیونا نے سامعین سے اس کے ساتھ تین مرتبہ نعرہ لگانے کی اپیل کرتے ہوئے کم از کم تین بار ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ لگایا۔ اسی طرح کی حرکت شاہین باغ دہلی میں چند روز قبل ایک عورت نے ہی کی تھی۔

 

شہ نشین پر موجود اشخاص حیرت میں پڑگئے۔ صدر مجلس بپھر گئے اور انھوں نے آگے بڑھ کر لیونا سے مائیک چھین لینے کی کوشش کی۔ فوری آرگنائزرس اور پولیس والے بھی حرکت میں آئے۔ چند سکنڈ کے فرق سے لیونا نے ”ہندوستان زندہ باد“ کا نعرہ شروع کردیا۔ فوری طور پر سمجھنا مشکل ہورہا تھا کہ آیا وہ ذہنی طور پر صحت مند ہے یا نہیں؟ یا بی جے پی حکمرانی والے کرناٹک میں یہ اندرون چار یوم ”سیاسی و سازشی شعبدہ بازی“ کا ایک اور مظاہرہ ہوا۔ لیونا کو اسد اویسی اور دیگر کئی افراد نے گھیر لیا۔ وہ ڈھٹائی سے اپنی حرکت میں مگن تھی۔ 

 

مجھے یقین ہے وہ محض عورت ہونے کی بناءمَردوں کے ہاتھوں پٹائی سے بچ گئی، حتیٰ کہ پولیس والے بھی لیونا کو پکڑ کر اسٹیج سے ہٹانے میں پس و پیش کررہے تھے کیونکہ لیڈی پولیس دستیاب نہیں تھی۔ بہرحال اندرون چوبیس گھنٹے حکام اور پولیس نے لیونا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرتے ہوئے قابل ستائش اقدام کیا ہے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ کرناٹک کے دونوں واقعات کو فوری ماضی کا ناپسندیدہ حصہ بناتے ہوئے مسلمانوں اور تمام صحیح سوچ و فکر کے حامل غیرمسلم ابنائے وطن کو اپنے اینٹی سی اے اے، این آر سی، این پی آر ایجی ٹیشن کو مزید شدت سے آگے بڑھانا چاہئے۔ 
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: