” اب آر ٹی سی ( روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ) کو بھول جائیں “ .... یہ الفاظ چیف منسٹر تلنگانہ کلواکنتلا چندرشیکھر راو گارو کے ہیں جو انھوں نے جمعرات کی شام ریاست کے اسمبلی حلقہ حضورنگر کے ضمنی چناو کا نتیجہ ظاہر ہونے کے پس منظر میں پرگتی بھون میں منعقدہ پریس کانفرنس سے پُرجوش مخاطبت کے دوران کہے۔ حضورنگر میں ضمنی چناو صدر پردیش کانگریس کمیٹی اتم کمار ریڈی کی لوک سبھا الیکشن میں جیت کے سبب منعقد کرانا پڑا۔ کانگریس ٹکٹ اتم کمار ریڈی کی اہلیہ نلامدا پدماوتی ریڈی کو دیا گیا جب کہ برسراقتدار ٹی آر ایس نے سائدی ریڈی شانم پوڈی کو انتخابی مسابقت کے لیے منتخب کیا، جو 43,358 ووٹوں کے واضح فرق سے یہ اسمبلی سیٹ کانگریس سے چھیننے میں کامیاب ہوئے۔


کے سی آر نے لگ بھگ 20 سال قبل متحدہ آندھرا پردیش میں چیف منسٹر نارا چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم حکومت کے دور میں مبینہ طور پر اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اسپیکر کے عہدہ پر تنازع کے پس منظر میں جب غیرمتوقع طور پر پارٹی چھوڑ دی اور علحدہ تلنگانہ کے دیرینہ مطالبہ کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا عزم کرتے ہوئے اپنی پارٹی ’تلنگانہ راشٹر سمیتی‘ تشکیل دی، تب سے ہی وہ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی قیادت میں تقریباً ساڑھے پانچ سالہ حکومت کے سواءہمیشہ میری ہی کیا، سب کی نظروں کی توجہ کا مرکز اور میڈیا کی شہ سرخیوں میں برقرار ہیں۔ میں نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر جو بات اخذ کی، جو شاید غلط بھی ہوسکتی ہے، وہ یہ کہ کے سی آر تلنگانہ کے ٹھیٹ سپوت ہیں، دھن کے بڑے پکے ہیں، سیاسی داو پیچ میں کب جارح ہونا اور کب پیچھے ہٹ جانا خوب جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے میرے ساتھ قارئین بھی ’کامیاب سیاستدان‘ کے لیے ان خصوصیات کو درست قرار دیں گے۔ تاہم، معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہے۔ میرا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی کہی ہوئی بعض اہم باتوں سے عملاً مکر کر کام کرتے ہیں، ووٹوں کی خاطر نیک نیتی کے بغیر بلند بانگ دعوے کردیتے ہیں، توہم پرستی سے متاثر رہتے ہیں جو کسی حکمران کے لیے زیب نہیں دیتا، 2014 میں حصول تلنگانہ اور نئی ریاست کے اولین چیف منسٹر بن جانے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ وہ آمریت کی طرف بڑھتے نظر آرہے ہیں۔


تلنگانہ اسٹیٹ آر ٹی سی کے 50,000 ملازمین 5 اکٹوبر سے مسلسل ہڑتال کررہے ہیں۔ ان کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا دسہرہ بھی ریاست پھیکا پھیکا گزر گیا اور اب دیوالی سر پر ہے۔ غیرمختتم 21 روزہ ہڑتال کی درمیانی مدت میں بعض ہڑتالیوں نے خودکشی کرلی اور بعض نے اس کی کوشش کی ہے۔ میں ذمہ دار شہری، حیدرآباد و تلنگانہ کا متوطن ہونے اور لگاتار اکتیس سال سے چند سرکاری خانگی اداروں میں ملازمت کے تجربہ کی بنا مانتا ہوں کہ جمہوریت میں ملازمین کی ہڑتال واجبی اور غیرواجبی یا کم از کم فوری عمل درآمد کیلئے ناممکن مطالبات کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی قابل انتظامیہ چند ناگزیر مطالبات قبول کرتے ہوئے درمیانی و اعتدال پسندی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ ہڑتال احتجاج طول پکڑتا ہے، نہ ادارہ کی سرگرمیاں خلل کا شکار ہوتی ہیں۔


کے سی آر نے آر ٹی سی کی ہڑتال پر ’راج ہٹ‘ کا طرزعمل اپنایا۔ انھوں نے ہڑتالیوں کے نمائندوں سے راست یا بالواسطہ بات چیت کرنا تک گوارا نہیں کیا۔ تاہم، 24 اکٹوبر کی پریس کانفرنس کے بعد اندرون 48 گھنٹے اتنی تبدیلی ضرور ہوئی کہ 26 اکٹوبر کو آر ٹی سی انتظامیہ اور ہڑتالیوں کے نمائندے بات چیت کے ذریعے کوئی درمیانی حل ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ویسے اس تبدیلی کا ایک بڑا سبب روشنیوں کے تہوار دیوالی کی آمد آمد ہے۔ مختصر یہ کہ کے سی آر اسی روش کے ساتھ اپنی دوسری میعاد میں آگے بڑھتے ہیں تو انھیں اور ٹی آر ایس کو بی جے پی کانگریس کے مقابل نقصان کا اندیشہ ہے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: