میرے لڑکپن کے ایک ساتھی نے ہم سات، آٹھ قریبی دوستوں کی ہفتہ وار دوستانہ نشست میں ایک مرتبہ نشاندہی کی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان جیسا مختلف نوعیت کے شعبوں میں زبردست کامیابی حاصل کرنے والا شخص شاید ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہے۔ فی الحال ذہن میں ماضی بعید سے کوئی دیگر نام نہیں ابھر رہا ہے۔ 67 سالہ عمران احمد خان نیازی کی پیدائش (5 اکٹوبر 1952) لاہور میں ہوئی۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور کے مشینری اسکول میں پائی، جس کے بعد فیملی نے ان کو برطانیہ منتقل کیا، جہاں انھوں نے آکسفورڈ کے کالج سے 1975 میں بی اے کی ڈگری فلاسفی، پالیٹکس اور اکنامکس کے گروپ (پی پی ای) میں حاصل کی۔ عمران 1971 میں اپنے ٹسٹ کریئر کی شروعات سے لے کر 1992 تک، جب ان کی قیادت میں پاکستان نے ورلڈ کپ منعقدہ آسٹریلیا نیوزی لینڈ جیتا، اپنے انٹرنیشنل کرکٹ کریئر میں ہمیشہ رعب دار کرکٹر کیپٹن رہے۔ شاید اسی لئے دراز قد ( تقریباً 2" ۔ 6' ) عمران خان کا اس دور میں عرفی نام ’کپتان‘ تھا۔


ورلڈ کپ فتح کے ساتھ ہی عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا، اور لاہور میں اپنے ڈریم پراجکٹ ’شوکت خانم ہاسپٹل‘ کے قیام کیلئے خود کو وقف کردینے کا اعلان کیا۔ یہ کوئی عام سا اسپتال قائم کرنے کی بات نہ تھی بلکہ وہ اس زمانے میں کینسر کے علاج اور تحقیق نیز عام لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے ہاسپٹل کے پاکستان کے فقدان پر مضطرب تھے۔ اس کا پس منظر ملاحظہ کیجئے۔ عمران خان کو یہ ہاسپٹل تعمیر کرنے کی تحریک اپنی علیل والدہ شوکت خانم کی تیمارداری کے دوران ملی، جو 1985 میں کینسر کے موذی مرض سے جانبر نہ ہوسکیں۔ عمران نے اپنی ماں کی علالت کے دوران پاکستان کے دواخانوں میں کینسر کے غریب مریضوں کی زبوں حالی دیکھی، اور انھیں گہرا احساس ہوا کہ اپنے ملک میں بھی کوئی اسپیشلائزڈ کینسر سنٹر کی ضرورت ہے۔ ان کا ویژن رہا کہ کینسر کے علاج کو ہر اس پاکستانی کیلئے ممکن بنایا جائے جو اس کا مستحق ہے۔ یہ بات ’شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر‘ کے ’خاص مقصد‘ کی تشریح میں ظاہر کی گئی ہے۔ شوکت خانم ہاسپٹل 1994 میں لاہور میں قیام کے بعد ترقی کرتے ہوئے پشاور میں برانچ قائم کرچکا اور اب کراچی برانچ زیرتعمیر ہے۔


دو سال بعد 1996 میں عمران خان نے اعتدال پسند سیاسی جماعت ”پاکستان تحریک انصاف“ (پی ٹی آئی) قائم کی۔ دنیا جانتی ہے کہ جمہوریت اور سیاست کے معاملے میں پاکستان کا ٹریک ریکارڈ خراب ہے اور کرپشن بھی عروج پر رہتا ہے۔ وقفے وقفے سے خیراتی اور فلاحی کاموں میں مشغول رہے عمران اپنے وطن کے سیاسی حالات سے بہت نالاں تھے۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (این) کے باری باری اقتدار میں پاکستان کی بڑھتی زبوں حالی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ زائد از دو دہوں کی جدوجہد میں پی ٹی آئی کو صرف صوبہ خیبر پختونخواہ (صوبہ سرحد) میں اقتدار حاصل ہوسکا۔ تاہم، عمران نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ نہ صرف اپنے آبائی صوبہ پنجاب میں ان کی پارٹی کو طاقتورو تجربہ کار پی ایم ایل (این) کے خلاف قابل لحاظ تائید حاصل ہورہی ہے، بلکہ دیگر صوبوں سندھ اور بلوچستان میں بھی وقت کے ساتھ ان کو حمایت مل سکتی ہے، جس کے بعد مرکزی اقتدار کا حصول ناممکن نہیں رہے گا۔ چنانچہ عمران خان زیرقیات پارٹی کی 22 سالہ سخت جدوجہد رنگ لائی، جب پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی ملی اور 18 اگست 2018 کو وہ پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم بنے۔


تاہم، اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کا ایک سال مکمل نہیں ہوا تھا کہ کٹر حریف پڑوسی نے بالواسطہ طور پر عمران خان کیلئے سنگین مسائل کھڑے کردیئے۔ 5 اگست کو مودی حکومت نے دستورِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے ذریعے جموں و کشمیر کا نہ صرف خصوصی درجہ ختم کیا بلکہ اسے ریاست سے گھٹا کر مرکزی زیرانتظام علاقہ بنا دیا۔ کشمیر 1947 میں تقسیم ہند سے دونوں پڑوسیوں کیلئے نہایت پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کا ماننا ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ نے 72 سال قدیم مسئلہ کشمیر کو حل کردیا ہے۔ اگر وہ وادی کشمیر کو عملاً پولیس چھاونی میں تبدیل کرنے، 5 اگست سے پوری سیاسی برادری کو گھروں یا قیدخانوں میں محروس کرنے، اور زائد از 80 دنوں سے عام کشمیریوں کا جینا حرام کرنے کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں تو ان کی سوچ، ان کی سیاسی فراست، ان کی دوربینی انھیں مبارک۔ دنیا میں ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب انسان کو انسان کوئی بات ٹھیک طرح سمجھا نہیں سکتا، مگر ”وقت“ وہی بات بہت اچھی طرح سمجھا دیتا ہے۔


چنانچہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کیلئے یکایک 5 اگست سے داخلی اور بیرونی سطح پر چیلنجس ابھر آگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کے تعلق سے مودی حکومت کے اقدام پر پاکستانی حکومت کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہوئی۔ یہ واقعی اچنبھے کی بات ہے کہ عمران خان اس معاملے میں کسی بھی مسلم ملک کی تائید و حمایت نہیں جٹا پائے۔ صرف ترکی نے حکومت ہند کے اقدام پر تنقید کی مگر جن کی نکتہ چینی سے مودی حکومت پر دباو پڑسکتا تھا، انھوں نے پاکستان سے منہ پھیر لیا، جیسے امریکہ، برطانیہ، فرانس، وغیرہ۔ داخلی سطح پر اپوزیشن پی ایم ایل (این) اور پی پی پی تو عمران حکومت کو گرانے کا بس موقع دیکھ رہے ہیں، جس کا ثبوت چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹوزرداری کا عمران حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ 31 سالہ بلاول پاکستان کی اولین خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو ( 2007 ۔ 1953 ) اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کے سپوت ہیں۔ وہ بھی اپنی ماں کی طرح برطانیہ کے تعلیم یافتہ ہیں اور اتنا عرصہ انگلستان میں رہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو کے مقابل انگریزی زیادہ روانی سے بولتے ہیں۔ تاہم، عمران حکومت کی تشکیل کے بعد سے پی پی پی بلاول کی قیادت میں محنت کررہی ہے۔ نواز شریف اور ان کی سیاسی لیڈر بیٹی مریم نواز کی گرفتاریوں نے پی ایم ایل (این) کو عمران خان سے خاصہ بدظن کررکھا ہے۔ ایسے حالات میں اگر پی پی پی اور پی ایم ایل (این) آپس میں اپوزیشن اتحاد بنالیں تو پی ٹی آئی کیلئے کشمیریوں کی مدد تو دور کی بات ہے، وطن میں اپنا اقتدار برقرار رکھنا ہی مشکل ہوجائے گا۔


ایسا نہیں کہ عمران خان کی صرف اور صرف خوبیاں ہی ہیں، اور کبھی وہ کسی تنازع میں نہیں پھنسے۔ پاکستان کے نامور کرکٹرز کے رشتہ دار عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے کھیل کے دنوں کے تعلق سے 1994 میں عجیب انکشاف بلکہ اپنی کئی بار کی گئی غلطی کا ازخود اعتراف کیا کہ انھوں نے انٹرنیشنل میچز کے دوران فاسٹ بولنگ کرتے ہوئے گیند کو اِدھر ادھر سے کھروچتے ہوئے فائدہ اٹھایا اور وکٹیں حاصل کئے۔ اس طرح ’بال ٹمپرنگ‘ کے مرتکب ہوئے۔ انگلینڈ کے مشہور کرکٹرز ایان بوتھم اور ایلن لیمب نے برطانوی عدالت میں عمران کے خلاف کیس دائر کیا۔ لیکن وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے اور کیس ہار گئے اور ان کو ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے پر پاکستانی اسٹار کو معاوضہ ادا کرنا پڑا۔ وہ شاید عمران خان کی پوری بات نہیں سنے تھے کہ اس دور میں میچ کوریج کیلئے آج کی طرح درجنوں کیمرے استعمال نہیں ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ عمران کی ہوشیاری سے کی گئی حرکتیں کہیں ریکارڈ نہ ہوسکیں۔ شادی کے معاملے میں عمران خان اور ان کی منتخبہ بیوی کا تال میل دو مرتبہ ناکام ہوچکا ہے۔ وہ جمیمہ گولڈ اسمتھ سے 1995 میں شادی کئے اور 2004 میں طلاق ہوگئی۔ طویل عرصے بعد 2015 میں ریحام خان کے ساتھ ازدواجی بندھن میں بندھے مگر اسی سال دونوں میں طلاق ہوگئی۔ اب ’عاملہ‘ بشریٰ بی بی 2018 سے عمران خان کے نکاح میں ہیں۔ تقریباً 43 سال کی عمر میں شادی کرنے سے قبل عمران خان ڈومیسٹک پارٹنر کے نام پر ایما سارجنٹ ( 1986 ۔ 1982 )، سیتا وائٹ ( 1991 ۔ 1987 ) اور کرسٹیانی بیکر ( 1994 ۔ 1992 ) کے ساتھ جڑے رہے تھے۔ جمیمہ سے عمران کو دو بیٹے سلیمان عیسیٰ خان اور قاسم خان ہیں۔ عمران خان کی ایک بیٹی بھی بتائی جاتی ہے جو جمیمہ یا دیگر منکوحہ سے نہیں ہوئی۔ ڈومیسٹک پارٹنر سیتا وائٹ کا دعویٰ ہے کہ ٹریان وائٹ ہی وہ بیٹی ہے۔ یہ معاملہ تقریباً دو دہے قبل شہ سرخیوں میں رہا تھا، مگر عمران خان نے کبھی سیتا وائٹ سے اپنی بیٹی ہونے کی توثیق نہیں کی ہے۔ توثیق نہ کرنے کی بعض وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اس لئے عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان کی اولاد کی تعداد 3 ہے اور ایسا سمجھنے، کہنے اور لکھنے والوں کے خلاف پاکستانی اسٹار نے ہتک عزت کا ایسا کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا جیسے بوتھم اور لیمب کے معاملے میں کیا تھا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: