حالیہ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کے نتائج کا 24 اکٹوبر کو اعلان کیا گیا اور تب سے برسراقتدار زعفرانی حلیف پارٹیوں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور شیوسینا کے درمیان اقتدار کی تقسیم کیلئے کشاکش میں 11 روز گزر چکے ہیں۔ موجودہ 13 ویں ریاستی اسمبلی کی میعاد 9 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔ یہ چیف منسٹر دیویندر فرنویس اور بی جے پی قیادت کیلئے بڑی پشیمانی کی صورتحال ہے کہ ان کے سیاسی اتحاد کی جونیئر پارٹنر سے انھیں نہایت تلخ تجربے کا سامنا ہورہا ہے۔ 


ادھو ٹھاکرے زیرقیادت شیوسینا کا دعویٰ ہے کہ لوک سبھا الیکشن 2019 کے موقع پر ہی صدر بی جے پی امیت شاہ نے سینا قیادت سے معاملت طے کی تھی کہ سب سے پہلے وہ جنرل الیکشن میں بی جے پی کا ساتھ دیں تاکہ مہاراشٹرا سے زیادہ سے زیادہ ایم پی زعفرانی اتحاد کے منتخب ہوسکیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔ اپریل مئی کے پارلیمانی انتخابات کے بعد اکٹوبر میں اسمبلی چناو کیلئے بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ ریاست میں الیکشن دوبارہ جیتنے کے بعد اقتدار کی تقسیم 50 ۔ 50 کے فارمولے پر ہوگی۔ یعنی پانچ سالہ میعاد میں نصف مدت بی جے پی کا چیف منسٹر ہوگا اور دیگر نصف مدت میں وزارت اعلیٰ شیوسینا کے پاس ہوگی۔


اب چیف منسٹر فرنویس اور بی جے پی قیادت انکار کررہے ہیں کہ سینا کے ساتھ اقتدار کی ایسی تقسیم کا کوئی لفظی یا تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف سینا کا موقف اٹل ہے کہ اقتدار میں برابر کی تقسیم کی معاملت ہوئی ہے۔ ویسے وہ ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت تو پیش نہیں کئے ہیں، لیکن نئی حکومت کی تشکیل میں تاخیر کی اصل وجہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیوسینا کے بانی آنجہانی بال ٹھاکرے کے دعوے کے برخلاف ٹھاکرے خاندان نے پہلی بار اس مرتبہ الیکشن لڑا اور ادھو ٹھاکرے کے فرزند آدتیہ ٹھاکرے مہاراشٹرا اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ اس پس منظر میں سینا قیادت کے چیف منسٹری کا مطالبہ کرنے میں جانے کیا کیا منصوبے ہیں، فی الحال کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔


بی جے پی قائدین مابعد نتائج صورتحال سے زچ ہونے لگے ہیں اور مہاراشٹرا کے بعض قائدین تو ریاست میں دوبارہ اسمبلی الیکشن کے انعقاد کی بات کررہے ہیں۔ تاہم، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے شیوسینا کا تاحال اٹل موقف بی جے پی کیلئے ’گلے کی ہڈی‘ بن چکا ہے؛ نہ نگل سکتے ہیں، نہ اگل سکتے ہیں۔ اتوار کو ضلع دھولے میں بی جے پی قائدین نے جائزہ اجلاس میں اس رائے کا اظہار کیا، جس سے ریاستی وزیر ٹورازم اور ایف ڈی اے جئے کمار راول نے ایک ٹی وی چیانل کو واقف کرایا ہے۔ چیف منسٹر فرنویس سے قریب سمجھے جانے والے راول نے کہا کہ پارٹی ورکرز کی رائے میں سینئر بی جے پی قائدین کو سینا کے ساتھ اتحاد نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ”ہمیں دوبارہ موقع دیجئے، ہم یہ مقابلہ دوبارہ لڑتے ہوئے جیت کر دکھائیں گے۔“ دھولے کی میٹنگ میں کئی بی جے پی قائدین، ورکرز، اور حالیہ اسمبلی چناو لڑچکے امیدواروں نے شرکت کی ہے۔


ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں شیوسینا نے 11 روز سخت موقف کے ساتھ گزارے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بڑی بات ہے، کیونکہ ادھو کو ہمیشہ نرم گرم موقف اختیار کرتے ہوئے اور کئی بار سیاسی دوغلاپن کا مظاہرہ کرتے پایا گیا۔ تاہم، اب 29 سالہ فرزند آدتیہ ممبئی سے ایم ایل اے منتخب ہوجانے پر ضرور سینا قیادت کو سیاسی حوصلہ ملا ہوگا۔ صدر یووا سینا آدتیہ حرکیاتی لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں، جو بلاشبہ ان کے انکل راج ٹھاکرے کی اوصاف میں سے ہے۔ بال ٹھاکرے کے دور میں راج کو ادھو پر واضح سیاسی برتری حاصل تھی۔ بانی شیوسینا کے آخری چند برسوں میں مبینہ طور پر سیاسی وراثت پر اختلافات نے راج کو علحدہ پارٹی ’مہاراشٹرا نونرمان سینا‘ تشکیل دینے پر مجبور کیا۔ مگر انھیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا، جبکہ شیوسینا کے کیڈر اور انتخابی نشان نے بال ٹھاکرے کے بعد بھی ادھو کی قیادت میں پارٹی کو ’زندہ‘ رکھا ہے۔
٭٭٭


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: