ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی بھاری اکثریت احمق پن کی حدیں پار کرنے میں لگی ہیں۔ انھیں اب نہ قومی مسئلہ کی تمیز باقی رہی، نہ ریاستی، نہ مقامی بلکہ یوں لگتا ہے کہ اب وہ بین الاقوامی مسائل جیسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے مسئلے کو تک بلدی چناو میں اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عمل لوک سبھا الیکشن 2019 سے قبل وزیراعظم مودی، صدر بی جے پی امیت شاہ اور متعدد برسراقتدار قائدین کرتے آرہے ہیں۔ بی جے پی اس معاملے میں پیش پیش ہے۔ ویسے وہ پہلے بھی لگ بھگ ہر الیکشن میں غیرمتعلقہ موضوعات کو زیادہ اچھالتی رہی ہے۔ اب مرکز میں لگاتار دوسری میعاد کے اقتدار نے انھیں بے قابو کر رکھا ہے۔ جو چاہے بولے جارہے ہیں۔ جسے چاہے بول رہے ہیں۔

 

اِن دنوں جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں۔ چھوٹی ریاست میں غیرمعمولی پانچ مرحلوں میں سے ایک ہوچکا ہے اور دوسرے کیلئے انتخابی مہم چل رہی ہے۔ گزشتہ روز امیت شاہ نے انتخابی جلسوں سے خطاب میں جھارکھنڈ کی باتیں بہت کم کئے اور این آر سی ( نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس ) کی فکر انھیں زیادہ نظر آئی، حالانکہ آل انڈیا لیول پر این آر سی کو لاگو کرنے کیلئے خود انھوں نے حکومت ہند کی طرف سے 2024 کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے جس سال اگلے جنرل الیکشن ہوں گے۔ جھارکھنڈ کی اسمبلی کا چناو ہورہا ہے اور وہ قومی سطح کے نہایت متنازع عمل کی باتیں وہ رائے دہندوں کو سنا رہے ہیں جہاں قبائلی اور کم خواندہ افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ اسے احمقانہ پن نہیں تو اور کیا کہیں گے۔ مزید یہ کہ مرکزی وزیر داخلہ نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے راہول گاندھی کو نشانہ بھی بنایا کہ انھوں نے این آر سی پر سخت تحفظات ظاہر کئے ہیں۔

 

امیت شاہ کے سیاسی گرو نریندر مودی کی روش بھی یہی رہی ہے۔ وزیراعظم پہلے تو سال بھر میں قومی دارالحکومت میں رہتے ہوئے اپنے منصب کے شایان شان کام کرتے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ انھیں سفر سے زیادہ دلچسپی ہے اور بیرون ملک کو ترجیح دیتے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے اکٹوبر میں مہاراشٹرا ، ہریانہ کے ریاستی انتخابات میں امیت شاہ کی طرح ان ریاستوں سے غیرمتعلقہ مسائل پر وقت نکال دیا۔ وہ بتاتے رہے کہ مودی حکومت نے کشمیر کا مسئلہ یوں دیکھتے دیکھتے حل کردیا، پاکستان میں گھس کر دہشت گرد ٹھکانوں پر حملے کئے، وغیرہ۔ مہاراشٹرا میں زرعی شعبے کی بری حالت ہے، کسان دھڑا دھڑ خودکشی کررہے ہیں۔ ملک کی دگرگوں معیشت کا ریاستی دارالحکومت ممبئی سے راست تعلق ہے۔ بی جے پی سے خود اس کی دیرینہ حلیف شیوسینا مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔ ان سب پر وزیراعظم کی تجربہ کار نگاہیں نہیں پڑیں؟

 

این آر سی کا کسی حد تک جواز آسام جیسی ریاست کیلئے نکل سکتا تھا جس کی سرحدیں ملک کی سات ریاستوں کے علاوہ دو ملکوں بنگلہ دیش اور بھوٹان سے ملتی ہیں۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کے وقت آسام میں بلاشبہ متعدد افراد بیرون ملک یا بیرون ریاست سے آکر بسے ہیں۔ ان میں مسلم ہیں اور غیرمسلم بھی۔ تاہم، جب آسام سے این آر سی کی تیاری کے ذریعے غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو بے دخل کرنے کی کوشش شروع ہوئی تو مختلف حکومتوں میں اس کیلئے 52,000 سرکاری ملازمین کی مدد سے 10 سال لگے۔ زیادہ پریشان کن بات اس کیلئے زائد از 1,200 کروڑ روپئے کے اخراجات ہیں۔ اس کے بعد حاصل کیا ہوا۔ عبوری فہرست میں تقریباً 40 لاکھ افراد کے نام غائب رہے اور قطعی فہرست شائع کی گئی تو 19 لاکھ افراد رہ گئے، جن میں اکثریت ہندووں کی ہے۔ 

 

آسام این آر سی کیلئے سرگرم حکام خود اب کہنے لگے ہیں کہ اسے ملک گیر سطح پر وسعت دینا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ اول بات، ملک میں کسی بھی ریاست کا جغرافیائی موقف آسام کی طرح نہیں۔ ہر ریاست سے نہ کوئی ملک کی سرحد ملتی ہے ، اور اگر کسی سے ملتی ہے تو اس ملک میں بنگلہ دیش جیسا کچھ نہیں ہوا کہ لوگ فراری پر مجبور ہوکر ہندوستان میں گھس گئے۔ آخر کون درانداز ہیں جن کو امیت شاہ اور مودی حکومت ملک سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے؟

 

کل ہند سطح پر این آر سی کی مساعی کا بار بار ، وقت بے وقت ، اور بے موقع تذکرہ کرنے میں امیت شاہ اور مودی حکومت، بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ارادے مشکوک ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تو امیت شاہ پہلے ہی بول چکے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو غیرقانونی طور پر مقیم ثابت کرنے کوشاں ہیں، تاکہ اس طرح انھیں ووٹنگ کے حق سے محروم کیا جائے۔ پہلے مرحلے میں جو مسلمان مطلوبہ دستاویزات پیش نہ کرسکیں، ان کو نشانہ بنایا جائے گا، بعد میں خاطیوں کے نام پر دیگر مسلمانوں کو بھی مراعات سے محروم کرنے کے ناپاک منصوبے معلوم ہوتے ہیں۔

 

تاہم، میرا مقصد موجودہ حقائق پیش کرکے میری برادری کو خوفزدہ کرنا نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلم کمیونٹی خود کو آنے والے چیلنجوں کیلئے اچھی طرح تیار کرے۔ بابری مسجد کیس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔ جب حکومت 2024 کے تعلق سے ابھی آگاہ کررہی ہے تو مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ این آر سی کی خود معلومات حاصل کریں، کوشش کے بعد سمجھ نہ آئے تو بہتر فہم رکھنے والوں سے رجوع ہوں، جو بھی ضروری دستاویزات کسی فرد کے ہوسکتے ہیں، وہ ہر ایک پاس باضابطگی سے ہونے چاہئیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کئی مسلم نوجوان ڈرائیونگ لائسنس بنوانے سے کتراتے ہیں، کیوں؟ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا۔ اسی طرح برتھ سرٹفکیٹ اور ڈیتھ سرٹفکیٹ کے معاملے میں بہت لاپرواہی برتی جاتی ہے۔ اسناد میں ناموں کے حروف، املا یا اسپلنگ ٹھیک ہوں، اس پر بہت معمولی تعداد توجہ دیتی ہے۔ مودی حکومت کی ناقص کارکردگی کو چھوڑیئے، لیکن یہ آج عالمی حقیقت کہ ڈیجیٹل دور ہے، مشینوں کے ذریعے کام لئے جارہے ہیں۔ آپ اپنے ڈاکومنٹس میں غلطیاں رکھیں گے تو مسترد ہوسکتے ہیں اور بعد میں سر پیٹنے سے آپ ہی کا نقصان ہوگا۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: