مگر صرف تشدد سے کام نہیں چلے گا

نریندر مودی کو بحیثیت چیف منسٹر گجرات کب سمجھ آیا کہ ان کی حکومت نے گودھرا واقعہ کے بعد ریاست میں ملک کے بدترین فسادات میں قابل گرفت رول انجام دیا؟ امیت شاہ کو سہراب الدین کیس میں گجرات سے تڑی پار کیا گیا، ان میں کچھ تبدیلی نہیں آئی۔ چیف منسٹر مودی کے دور میں شاہ کا ایسا طاقتور موقف بھی رہا جب ان کو ایک دو نہیں بلکہ 12 قلمدانوں کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ گجرات کے وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کا احمدآباد میں مارچ 2003 میں قتل ہوا، لیکن مودی۔ شاہ کی حکومت نے اپنے اہم وزیر کے قتل پر علامتی کارروائیاں کرتے ہوئے حیدرآباد سے چند گرفتاریاں کروائیں اور پھر دامن جھاڑ لیا۔ مودی۔ شاہ کو مرکز میں اقتدار ملنے کے چند ماہ بعد سہراب الدین انکاونٹر جیسے اہم کیسوں سے نمٹنے والے جسٹس لویا کی زندگی شادی کی تقریب کے بہانے گجرات سے مہاراشٹرا لے جانے کے بعد ڈسمبر 2014 میں مشکوک حالات میں ختم ہوئی، برسراقتدار جوڑی نے بس جسٹس لویا کی موت کے کیس کو تیزی سے بند کرانے میں دلچسپی دکھائی۔ ایسے ٹریک ریکارڈ رکھنے والوں کے تعلق سے آپ کا نئے قانون شہریت اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) میں نیک نیتی کی توقع رکھنا فضول ہے۔

 

نئے قانون شہریت اور ملک گیر سطح پر ممکنہ این آر سی عمل کے خلاف متعدد ریاستوں میں جو احتجاج اور تشدد برپا ہورہا ہے، وہ حق بجانب ہے۔ ان قانونی اقدامات کا راست شکار مسلمان بننے والے ہیں۔ شمال مشرق والوں کو اپنے آبادیاتی توازن، اپنی زبان، اپنے کلچر کو زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے وہ بھی احتجاج کررہے ہیں، بلکہ انھوں نے ہی شہریت (ترمیمی) بل پارلیمنٹ میں پیش ہوتے ہی پرتشدد مخالفت شروع کی۔ مسلمانوں کو شمال مشرقی شہریوں سے سیکھنا چاہئے۔ دیر آئے درست آئے کے مصداق بڑی اقلیت نے بھی شمال، جنوب، مشرق میں اپنی آواز اٹھاتے ہوئے احتجاج شروع کردیا، جو گزشتہ روز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بدبخت انتظامیہ اور پولیس فورس کی وجہ سے تشدد کی شکل اختیار کرگیا۔ اسٹوڈنٹس میں لڑکیوں اور لیڈی جرنلسٹ کو تک نہیں بخشا گیا۔ یہ سراسر احمقانہ پن، انانیت، تکبر اور ہٹلرازم کی یاد دلاتا ہے۔

 

مجھے اور شاید آپ کو بھی اندازہ ہے کہ برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سوچ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) طے کرتا ہے، جس کی 1925 میں تشکیل جرمنی کے اڈالف ہٹلر کی طرزحکمرانی اور مطلق العنانی سے متاثر ہوکر ہوئی تھی۔ آر ایس ایس کا ٹارگٹ ہے کہ 100 سال یعنی 2025 تک ہندوستان کو ”ہندو راشٹرا“ بنایا جائے۔ حالیہ دو تین دہوں میں ہندوستان کو اسرائیل اور اس کی ہر چیز بہت پسند آنے لگی ہے اور کم از کم مودی حکوت مسلمانوں کے ساتھ کچھ اسی طرح کے سلوک کا ارادہ رکھتی ہے جو فلسطینی عربوں کے ساتھ اسرائیل کا برتاو ہے۔ یہ باتیں باضابطہ معلنہ اور دستاویزی تو نہیں لیکن حرکتوں اور اقدامات سے شکوک و شبہات کو تقویت ہی مل رہی ہے۔

 

میں سمجھتا ہوں، مودی۔شاہ۔آر ایس ایس مختلف حربوں سے کام لے رہے ہیں تو کیا مسلمانوں اور امن و انصاف پسند ابنائے وطن کو دماغ نہیں ہے۔ کیا وہ کوئی جوابی وار تلاش نہیں کرسکتے؟ جیسے ہی شہریت (ترمیمی) بل منظور ہوا، ایک امریکی قانون ساز نے بیان دیا کہ امیت شاہ پر پابندی عائد کردینا چاہئے جس طرح مودی پر گجرات فسادات کے بعد عائد کی گئی تھی۔ یہ انڈیا کیلئے ایک اچھا بیان تو ہے۔ تمام ذی اثر مسلم شخصیتوں کو مل بیٹھ کر حکمت عملی طے کرنا چاہئے۔ نہ صرف امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بلکہ تمام مسلم مملکتوں کو شخصی طور پر نہ سہی، تحریری یادداشتیں روانہ کریں۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل سے بھی تحریراً رجوع ہوں۔ سب کو بتائیں کہ مودی حکومت ملک میں دستور کی دھجیاں اڑا رہی ہے، اقلیتی حقوق کو پامال کررہی ہے۔ ایودھیا جیسے حساس کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ کے بعد اب ہمیں اس بھرم میں نہیں رہنا چاہئے کہ عدلیہ ہنوز قابل بھروسہ ہے۔ نئے قانون شہریت اور این آر سی کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہونا فضول معلوم ہوتا ہے۔ پھر وہی منطق لے آئیں کہ ایودھیا فیصلہ میں نظرثانی کی عرضی پیش کرنا ہمارا دستوری حق ہے، تو یہ یاد بھی رکھیں کہ ایسی 18 عرضیوں کا سپریم کورٹ نے چند منٹ میں کیا حشر کیا؟ نہ صرف عدلیہ بلکہ ہمیں بڑے بڑے بزنس گروپس (خاص طور پر گجراتی) کا بھی بائیکاٹ کرنا چاہئے جو مودی حکومت کی فنڈنگ کرتے ہیں۔ جیسے ہم نے اسرائیل کے خلاف ’ نیسلے‘پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے فلسطین سے اظہار یگانگت کا اظہار کیا تھا۔

 

کانگریس نے نئے قانون شہریت اور این آر سی کیخلاف ہفتہ کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ”بھارت بچاو ریلی“ منعقد کی جو کامیاب رہی۔ تاہم، 2014 میں مودی اقتدار کے بعد سے آج تک مجھے اصل اپوزیشن پارٹی اور دیگر جماعتوں کا رول کچھ عجیب نظر آیا ہے۔ کانگریس اور اس کی قیادت اور ان کے اثر و رسوخ کو معمولی سمجھنا غلط ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کانگریس نے مودی اقتدار میں توقعات سے کمتر اپوزیشن کا رول نبھایا ہے۔ علاقائی پارٹیوں کے تعلق سے سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ صرف اپنے علاقائی مفادات میں مگن رہتے ہیں۔ قومی مفادات انھیں سمجھ نہیں آتے، یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے۔

 

لہٰذا، ہم کو قومی امور میں نیشنل پارٹی کانگریس پر ہی توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ مودی اقتدار میں کانگریس کی بے بسی یا دانستہ و غیردانستہ کوتاہی کی مجھے تین وجوہات نظر آتی ہیں۔


ایک۔ کانگریس چاہتی ہے کہ یو پی اے ۔ 1 کے بعد یو پی اے ۔ 2 میں خاص طور پر 2012 سے ملک کے دگرگوں حالات پیدا ہوئے جیسے یکے بعد دیگر کرپشن کے الزامات، خواتین کے خلاف تیزی سے بڑھتے جرائم، مختلف ریاستوں میں وقفے وقفے سے بم دھماکے؛ وہی سب کچھ وہ مودی۔ 2 میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے بعد عوام موجودہ حکومت کو بے دخل کردیں گے۔


دو۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) ”بوتل کے جن“ کی مانند ہے۔ اس کو کانگریس نے اچھی طرح استعمال نہیں کیا، اور 2014 سے بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ چنانچہ اب یہ چیز کانگریس کے بس میں نہیں ہے۔ جہاں تک بم دھماکوں کی بات ہے، عوام کو شاید اچھی طرح سمجھ آگیا ہوگا کہ وہ دھماکے کون کرا رہا تھا اور کون کررہے تھے؟ میرے خیال میں کانگریس ”بم دھماکوں کی سیاست“ تک گرنا نہیں چاہتی، یا پھر ڈرتی ہے۔


تین۔ کانگریس اور اس کی قیادت واقعی کمزور ہوچکی ہے اور اس کا کیڈر سکیولر اصولوں کو ٹھوکر مار چکا ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں چیف منسٹر راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد، ریاست کی تقسیم پر علحدہ ریاستوں میں، اترپردیش میں، گجرات، کرناٹک، مغربی بنگال، دہلی، مہاراشٹرا، بہار، اڈیشہ، ٹاملناڈو، مدھیہ پردیش، راجستھان، گوا، منی پور وغیرہ میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کانگریس ہائی کمانڈ کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں، ریاستی قائدین من مانی کررہے ہیں۔ یہ بنیادی وجہ ہے کہ 2019 جنرل الیکشن کے بعد راہول گاندھی نے کانگریس کی صدارت چھوڑ دی۔

 

جہاں تک کانگریس کیڈر اور ان سے وابستہ راست لیڈروں کا سوال ہے، ان کی حرکتیں تو کافی تشویشناک ہے۔ 2017 اور اس کے بعد ہم نے گجرات میں دیکھا کہ کانگریسیاں بی جے پی کی طرف دوڑے جارہے تھے۔ کیوں دوڑ رہے تھے، سب کو پتہ ہے۔ اب کرناٹک میں حد ہوگئی۔ جے ڈی ایس۔ کانگریس مخلوط حکومت کو 15 منحرف ایم ایل ایز نے گرایا اور بی جے پی اقتدار کو یقینی بنایا۔ اپنی پارٹی سے منحرف ہونے کی بناءانھیں دوبارہ ضمنی اسمبلی چناو لڑنا پڑا۔ گزشتہ دنوں نتائج پر معلوم ہوا کہ 12 منحرفین بی جے پی ٹکٹ پر جیت گئے۔ یدی یورپا حکومت مستحکم ہوگئی۔ 


انڈیا میں صرف دو بڑی نیشنل پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی ہیں جن کے نظریات بالکلیہ برعکس ہیں۔ دونوں نے شاید ہی کبھی ایک دوسرے کے کاموں کی حمایت کی ہے۔ کرناٹک میں کانگریس اور جے ڈی ایس کے لیجسلیٹرز کو ان کے حلقوں کے ووٹرس بی جے پی کیلئے منتخب کریں، یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ یہ صرف اور صرف ’ای وی ایم‘ جن کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ اب یہ جن کو دوبارہ کس طرح بوتل میں بند کیا جائے، یا پھر اسے قابو میں کرنے کیلئے کوئی زیادہ طاقتور ’سسٹم‘ کو لایا جائے، تو ہی انڈیا میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: