سٹیزن شپ ایکٹ 1955 میں ترمیم کے بعد نئے قانون (سی اے اے) میں ہندوستان کی اکثریتی آبادی والے ہندووں سے لے کر پانچ اقلیتوں سکھ، جین، پارسی، بودھ اور عیسائیوں کو شامل کرنے اور دوسری بڑی اقلیت مسلمان کو خارج رکھنے کے متعصبانہ اقدام پر نہ صرف ملک بھر بلکہ اب دنیا بھر میں جگہ جگہ احتجاج ہورہے ہیں۔ تاہم، مودی حکومت بالخصوص وزیر داخلہ امیت شاہ ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سی اے اے اور یکم اپریل 2020 سے معلنہ قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کا عمل شروع کرنے کے بارے میں کسی کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ وہ اپنی حماقت میں ایسے آگے بڑھ رہے ہیں جیسے کہ سی اے اے، این پی آر اور پھر منصوبہ بند قومی رجسٹر شہریان (این آر سی) پر کہیں کسی کو کچھ تشویش نہیں اور نہ کوئی احتجاج ہورہا ہے۔

 

آج جمعہ 17 جنوری کو قومی دارالحکومت نئی دہلی میں مردم شماری اور این پی آر کے انعقاد کے سلسلہ میں مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ تمام ریاستوں کے متعلقہ حکام کی میٹنگ ہورہی ہے۔ اس میں طے کیا جائے گا کہ مردم شماری اور این پی آر دونوں کا عمل کس طرح منعقد کیا جائے؟ حکومتی عہدیداروں نے عوام پر رعب ڈالنے کیلئے انکشاف کیا ہے کہ جو کوئی این پی آر کے عمل میں تعاون نہ کرے یا غلط معلومات فراہم کرے، اس پر 1,000 روپئے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ مودی حکومت کے احمقانہ فیصلوں پر ہنسی آرہی ہے۔ مغربی بنگال، کیرالا اور کئی کانگریس حکمرانی والی ریاستوں نے این پی آر پر تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وہاں کروڑوں کی آبادی ہے۔ پتہ نہیں ان ریاستی حکومتوں کیلئے مودی۔شاہ حکومت نے کیا جرمانہ سوچ رکھا ہے؟

 

مردم شماری ہو کہ این پی آر یا اور کوئی عمل، سب کیلئے مرکز کو ریاستی حکومت کے عملہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ تعاون کیلئے تیار نہیں تو کیا مرکز وہاں ، وہاں صدر راج نافذ کرنے والی ہے؟ یا فوج بھیج کر این پی آر کا عمل منعقد کرائے گی؟ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی دستور اور سرکاری قوانین کے بارے میں جانکاری عیاں ہوتی جارہی ہے۔ اس لئے یاددہانی کرا رہا ہوں کہ بھارت ”یونین آف اسٹیٹس“ ہے۔ آزاد ہند کی پوری تاریخ میں کتنے ہی تاریخی پارلیمانی، عدالتی اور عاملانہ فیصلے کئے گئے، لیکن ایسی صورتحال کبھی پیش نہیں آئی، جو مودی حکومت 2.0 شروع ہوتے ہی پیدا ہوگئی کیونکہ کبھی تڑی پار رہے شخص کو امور داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔ 

 

سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کس کا ایجنڈہ پورا کیا جارہا ہے۔ مانا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے 1925 میں خواب دیکھا تھا کہ 2025 تک بھارت ”ہندو ملک“ ہوجانا چاہئے۔ تاہم، عوام اور ریاستوں سے ٹکراو کی صورتحال پیدا کرتے ہوئے آج کے عصری دور میں یہ ممکن نہیںہے۔ کس نے سوچا تھا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں بننے والے قانون پر پولینڈ، سوئٹزرلینڈ، جنوبی افریقہ جیسے ملکوں میں تھوڑی تعداد میں مقیم انڈین کمیونٹی احتجاج کرے گی اور مقامی لوگ اور انتظامیہ انھیں نہیں روکیں گے؟

 

ملک اور بیرون ملک سب کو صورتحال کی سنگینی سمجھ آرہی ہے سوائے مودی کابینہ، وزراء، بی جے پی اور آر ایس ایس ورکرس۔ حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے کہ 2003 کے ترمیم شدہ قانون کے مطابق این پی آر منعقد کیا جارہا ہے، جو 2010 اور 2015 میں اَپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ 2003 میں واجپائی حکومت نے قانون شہریت 1955 میں ترمیم کی تھی مگر اس پر عمل آوری کیلئے ان کی حکومت برقرار نہیں رہی۔ جنوری 2009 میں بائیو میٹرک ڈیٹا والا ’آدھار‘ متعارف کرایا گیا جس پر احتجاج کے بغیر سارے ملک میں عمل ہوا ہے، کیونکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ زیرقیادت یو پی اے ۔ 1 حکومت کے ارادے گھناونے نہیں رہے، جیسے موجودہ حکومت کے ہیں۔ وہ بڑی اقلیت کو بے وقوف سمجھ کر سب سے پہلے ان کا ووٹنگ رائٹ چھیننا چاہتے ہیں۔

 

جب آدھار آگیا تو این پی آر کی ضرورت باقی نہیں رہی، لیکن نومبر 2008 کے ممبئی حملہ کے بعد فوری ضرورت کے پیش نظر یو پی اے حکومت نے این پی آر کرایا، جسے آدھار کے مدنظر محدود رکھا گیا۔ 2014 میں مودی حکومت قائم ہونے کے بعد 2015 میں این پی آر کو دھوم دھام اور بائیو میٹرک سسٹم کے بغیر اَپ ڈیٹ کیا گیا۔ تب تک آدھار نے کافی پیش رفت کرلی تھی اور علحدہ بائیومیٹرک ڈیٹا حاصل کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ آدھار کو اب 11 سال ہورہے ہیں۔ 

 

میں سمجھتا ہوں دور دراز کے علاقوں، قبائلی پٹیوں اور پہاڑی خطوں کے سواءملک کے دیگر حصوں میں آدھار موجود ہے۔ اس کے تحت آدھار والے فرد کی تصویر، اس کی آنکھوں کا امیج (آئریز)، اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کا امیج جیسا بائیومیٹرک ڈیٹا لیا جاتا ہے اور لیا گیا ہے، جو حکومت کے پاس محفوظ ہے۔ آدھار کو انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے جاری کردہ پیان (پی اے این) یا پرمننٹ اکاونٹ نمبر سے جوڑا گیا ہے۔ بینک کھاتہ کھولنا ہو، ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا ہو، شادی کے رجسٹریشن کا معاملہ ہو، گیس کنکشن لینا ہو، ووٹر آئی ڈی کارڈ بنانا ہو، ان سب کے علاوہ مزید کئی معاملوں میں ’آدھار‘ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ 

 

مودی۔شاہ حکومت یہ واضح کرنے سے قاصر ہے کہ ہندوستانی شہریوں کا بائیومیٹرک ڈیٹا پہلے سے محفوظ ہونے کے باوجود این پی آر کے ذریعے آخر وہ کیا نئی معلومات اکٹھا کرنا چاہتے ہیں؟ ملک کے جغرافیائی حدود میں سَروں کی گنتی یعنی جملہ آبادی کا شمار بنام ”مردم شماری“ (سنسیس) تو کئی دہوں سے ہورہا ہے اور 2021 میں بھی مقرر ہے۔ یعنی حکومت کے پاس آدھار کی شکل میں بائیومیٹرک ڈیٹا ہے اور سنسیس سے ان کو جملہ آبادی کا پتہ بھی چل جائے گا۔ پھر یہ این پی آر آخر کس مرض کی دوا ہے اور کیوں اس کیلئے غریب ملک کے ہزاروں کروڑ روپئے جھونکے جارہے ہیں؟ دیکھتے ہیں آج حکومتی سورما کیا ’دانشمندانہ‘ فیصلے کرتے ہیں۔ فی الحال میں یہی کہنا چاہوں گا کہ حکومت پر این پی آر کا بھوت سوار ہوگیا ہے۔ یہ بھوت معمولی نہیں ہے۔ اس میں تقریباً چھ سالہ پختگی ہے۔ لہٰذا، آسانی سے اترنے والا نہیں۔ اقلیتوں کو کمر کس لینا ضروری ہے تاوقتیکہ این پی آر کا بھوت دفع نہ ہوجائے۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: