تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد میں حالیہ دنوں مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاجوں کے دوران ”کے سی آر منہ کھول، کچھ تو بول“ کے نعرے لگتے رہے، کیونکہ ٹی آر ایس لیڈر نے 24 ڈسمبر کو تین درجن نمائندہ مسلم شخصیتوں پر مبنی وفد کو تیقن دیا تھا کہ وہ سی اے اے معاملے پر دو دن میں اپنا موقف ظاہر کریں گے۔ بہرحال چیف منسٹر نے 25 جنوری کو ریاست میں بلدی انتخابات میں اپنی پارٹی کی غیرمعمولی کامیابی کے بعد آخرکار اپنا منہ کھولا اور اعلان کیا کہ ریاستی اسمبلی میں حکومت سی اے اے کیخلاف قرارداد منظور کرے گی۔ 

 

اعلان اور وعدے میں فرق ہوتا ہے۔ 2014سے کے سی آر نے بہت وعدے اور دعوے کئے لیکن کم از کم مسلمانوں کے حق میں شاید ہی کوئی وعدہ حقیقی معنوں میں پورا کیا گیا ہے۔شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) بالکلیہ مختلف معاملہ ہے۔ اس کے ذریعے مرکزی حکومت 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے ہندوستان میں وجود کو چیلنج کررہی ہے، جس کی دستورِ ہند میں گنجائش نہیں ہے۔ مودی حکومت نے محض پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کی بنا نہایت متنازع اور انتشار پسند قانون بنایا ہے، جو بلاشبہ اپنی تقریباً چھ سالہ ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

 

کے سی آر کو شاید بڑے وعدوں اور اعلانات کیلئے ریاست یا ملک میں کسی بھی سطح کے انتخابات کا انتظار رہتا ہے۔ 2014 کے پہلے تلنگانہ اسمبلی الیکشن اور لوک سبھا انتخابات کی انتخابی مہم سے لے کر انھوں نے لگ بھگ ہر بڑا وعدہ بشمول 12 فیصد تحفظات برائے مسلم برادری اور اعلان چناو سے عین پہلے یا بعد میں کیا ہے۔ حالیہ حضورنگر ضمنی اسمبلی چناو کا موقع یاد کیجئے۔ جیسے ہی ٹی آر ایس نے کانگریس سے اسمبلی نشست چھین لی، کے سی آر نے طویل ٹی ایس آر ٹی سی ہڑتال ختم کرنے میں مصلحت دکھائی اور ہزاروں ملازمین کا جاب بحال ہوا۔ ورنہ الیکشن سے پہلے تو چیف منسٹر آر ٹی سی کو بھی ختم کردینے کی دھمکی دے رہے تھے۔ چیف منسٹر کا دعویٰ ہے کہ آر ٹی سی کو اس کی یونینیں نقصان پہنچا رہی ہیں۔

 

این پی آر پر موقف کی وضاحت بھی ضروری


Declaring position on NPR needed too

 

زائد از ایک ماہ سے سی اے اے، این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)، این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) پر تلنگانہ حکومت کے موقف کو جاننے کیلئے ریاست کے لاکھوں مسلمان بے چین تھے۔ بلدی چناو کے نتائج جاری ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں کے سی آر کے زبانی اعلان سے مسلمانوں کو کچھ راحت ملی ہے۔ کچھ راحت اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ ٹی آر ایس حکومت ممکنہ طور پر فروری کے وسط تک اسمبلی سیشن طلب کرتے ہوئے مخالف سی اے اے قرارداد منظور کرنا چاہتی ہے۔ اب سے وسط فروری تک معقول وقت ہے اور کے سی آر کی ’سیاست‘ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

 

کے سی آر نے پریس کانفرنس میں ہم خیال پارٹیوں کا اس مسئلہ پر اجلاس منعقد کرنے کی بات کہی ہے، حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم خیال پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی باتیں وہ لوک سبھا الیکشن 2019 کے موقع پر کرچکے، جس میں ان کو سوائے مجلس کسی کا ساتھ نہیں ملا۔سی اے اے ایسا قومی مسئلہ نہیں کہ پہلے دیگر ریاستوں سے مشورہ کیا جائے پھر کوئی موقف اختیار کریں۔ ہندوستان ریاستوں کا وفاقی ڈھانچہ ہے جس میں ہر ریاست کو اپنا موقف پیش کرنے کی آزادی ہے۔ پھر قطعی فیصلہ جمہوریت کے مطابق ہوگا۔ یعنی اکثریت کی رائے کو تسلیم کیا جائے گا۔ اسی لئے سب سے پہلے چیف منسٹر ممتا بنرجی (مغربی بنگال) نے اعلان کیا کہ وہ نہ سی اے اے کو قبول کرتی ہیں اور نہ ریاست میں این پی آر، این آر سی کی اجازت دیں گی۔ کیرالا نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سب سے پہلے اسمبلی میں سی اے اے کیخلاف قرارداد منظور کی۔ بعدازاں کانگریس زیراقتدار ریاستوں پنجاب، راجستھان نے بھی ایسا کیا۔

 

آنے والے دنوں میں مزید کئی ریاستوں کی طرف سے کیرالا جیسے اقدام کی پوری توقع ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کے سی آر ان سب کو سیاسی اعتبار سے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ہاں، کے سی آر کا حکمرانی چلانے کا اپنا منفرد انداز ہے جو اکثر و بیشتر عوام بالخصوص مسلمانوں کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ چیف منسٹر اپنے انداز کارکردگی میں کچھ تبدیلی لائیں تو آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ آج تلنگانہ کے مسلمانوں کی اکثریت ماضی فراموش کرنے تیار ہے، بشرطیکہ کے سی آر گزشتہ روز کے اعلان کو ریاستی اسمبلی میں عملی اقدام تک پہنچائیں۔

 

چیف منسٹر نے پریس کانفرنس میں این پی آر، این آر سی کے تذکرے سے ’دانستہ‘ گریز کیا۔ بعد میں ریاستی وزیر اور چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت این پی آر اور این آر سی پر جلدبازی میں کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتی ہے۔ یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔ امیت شاہ کی وزارت داخلہ زائد از ایک ماہ قبل اعلان کرچکی کہ سنسیس 2021 کے پہلے مرحلے کے ساتھ این پی آر بھی یکم اپریل تا 30 ستمبر 2020 منعقد کیا جائے گا۔ اس اعلان سے بمشکل دس روز قبل شہریت ترمیمی قانون بنا۔ چنانچہ ٹی آر ایس حکومت کو سی اے اے پر اعلان کرنے میں جتنا وقت درکار ہوا، لگ بھگ وہی کچھ این پی آر کیلئے بھی ہوا ہے۔ 

 

تلنگانہ میں سی اے اے کیخلاف اسمبلی کی قرارداد کی متوقع منظوری مگر این پی آر کے انعقاد میں ٹی آر ایس حکومت کے تعاون سے بڑا تضاد ہوجائے گا۔ سی اے اے نیا قانون ہے جبکہ معلنہ این پی آر کو خود مرکزی حکومت نے این آر سی کی طرف پہلا قدم بتایا ہے۔ این آر سی کا حشر اور اس کے اثرات ہم آسام میں دیکھ چکے ہیں۔ برسوں قبل این آر سی صرف آسام کیلئے تجویز کیا گیا تھا جس پر 2018 میں مودی حکومت نے سپریم کورٹ کی اجازت سے بڑی سرگرمی سے عمل کرایا لیکن نتیجے نے بی جے پی کے ہوش اڑا دیئے۔ 

 

آسام این آر سی کی قطعی فہرست سے حذف 19 لاکھ ناموں میں تقریباً 14 لاکھ ہندو نام ہیں۔عام طور پر حکومتیں کامیاب اسکیم کو وسعت دیتی ہیں لیکن مودی۔ شاہ جوڑی کو شاید الٹے کام اور متضاد بیانات دینا اچھا لگتا ہے۔ وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہا کہ ملک گیر این آر سی ہوگا جبکہ وزیراعظم مودی کو این آر سی اور ملک میں کسی ڈیٹنشن سنٹر کے قیام کی خبر ہی نہیں؟ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ مودی۔ شاہ حکومت کے ارادے صاف نہیں ہیں۔ وہ نیک نیتی سے کام نہیں کررہے ہیں۔ ’کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ‘ والا معاملہ چل رہا ہے۔ وہ سب سے پہلے مرکزی حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اور پھر وہی ہندوتوا کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔

 

اس صورتحال میں اگر ٹی آر ایس حکومت صرف ریاستی اسمبلی میں سی اے اے کیخلاف قرارداد منظور کرتی ہے مگر یکم اپریل سے این پی آر میں تعاون کرنے سے مرکز کو واقف کراتے ہیں تو میرے خیال میں یہ دہرے معیار اور دوغلی پالیسی کی ایک اور مثال ہوگی۔ پڑوسی اے پی حکومت کے چیف منسٹر جگن موہن ریڈی سے کے سی آر کا خوشگوار تال میل ہے۔ جگن حکومت نے این پی آر میں اپنی ریاست کے تعاون کا اعلان کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہے، کے سی آر کیا کرتے ہیں؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: