میں کے سی آر کا سیاسی شیدائی نہیں۔ اس لئے مجھے گزشتہ تقریباً چھ سال کے دوران چیف منسٹر تلنگانہ کی حیثیت سے ان کی ’کارکردگی‘ (علحدہ موضوع) کی تعریف کرنے کا بہت کم موقع ملا ہے۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ میں موجودہ ”گودی میڈیا“ کا حصہ ہوں، نہ کسی پارٹی یا لیڈر کا ”اَندھا حامی“۔ میں غیرجانبدار جرنلسٹ کی حیثیت سے سوچتا ہوں کہ آج کے ’مشکل دور‘ میں کوئی بھی درست اقدام کی تائید و حمایت کرنا ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی سیاسی گوشہ کی طرف سے ہو۔ چنانچہ پیر 16 مارچ 2020 کو ٹی ایس اسمبلی میں چیف منسٹر کلواکنتلا چندر شیکھر راو کی سی اے اے، این پی آر، این آر سی کیخلاف تقریر اور چھ صفحات پر مشتمل قرارداد کی منظوری کی کھلے دل سے ستائش کرتا ہوں۔ دیر آئے درست آئے (فارسی : دیر آید درست آید)۔

 

شہریت (ترمیمی) قانون یا سی اے اے کیساتھ ساتھ این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر)اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کی مخالفت کرنے والے ریاستوں اور مرکزی علاقوں کی تعداد اب 12 ہوگئی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ مرکز میں برسراقتدار این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کی دو شرکاءپارٹیوں کی حکمرانی والی ریاستیں بہار اور ٹاملناڈو بھی اس فہرست کا حصہ ہیں۔ پنجاب، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش چار کانگریس زیراقتدار ریاستیں ہیں۔ چار دیگر ریاستوں ویسٹ بنگال، کیرالا، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں غیرکانگریس، غیربی جے پی حکومتیں ہیں۔ پڈوچیری اور دہلی مرکزی زیرانتظام علاقے کے زمرہ میں آتے ہیں۔

 

ان تمام ریاستوں و مرکزی علاقوں میں صرف ایل ڈی ایف (لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ) حکمرانی والے کیرالا سے چیف منسٹر پی وجین کی قیادت میں ریاستی حکومت نے اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے علاوہ باضابطہ تحریری طور پر مرکز کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں این پی آر کا عمل کرانے میں تعاون کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ سیاسی و قانونی طور پر ریاست اور مرکز کے درمیان سنگین ٹکراو کا معاملہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیرالا سی اے اے، یکم اپریل 2020 سے این پی آر، مجوزہ ملک گیر این آر سی کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہوا۔ عدالت عظمیٰ میں اس موضوع پر دیگر درجنوں عرضیاں بھی داخل ہیں۔ عدالت نے تمام کو یکجا کرتے ہوئے سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالتی کشمکش کی بروقت یکسوئی نہ ہوئی تو ناخوشگوار صورتحال پیش آنے کا اندیشہ ہے، جیسے دستوری آرٹیکل 356 کو استعمال کرتے ہوئے ریاست میں صدر راج نافذ کردینا۔

 

بے شک، پارلیمنٹ اور صدرجمہوریہ کا منظورہ قانون پورے انڈیا یونین (28 ریاستوں اور 9 مرکزی علاقوں کا وفاقی اتحاد) پر لاگو ہوتا ہے، لیکن حکومت کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حکومت تو عوام کی ہوتی ہے ، عوام کیلئے ہوتی ہے، اور عوام کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب موجودہ مرکزی حکومت کے اقدامات کی ایک، دو نہیں بلکہ بارہ ریاستیں اور مرکزی علاقے مخالفت کررہے ہیں، تو پھر مرکز کا اقدام (سی اے اے، این پی آر، مجوزہ این آر سی) عوام کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتا۔ انڈیا یونین کے ایک تہائی حصہ کی تشویش و فکرمندی کو دور کئے بغیر آگے بڑھنا خود انڈیا یونین کی ”صحت کیلئے جوکھم“ ہوگا۔

 

این پی آر کو سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی گنجائشوں اور شہریت (شہریوں کا اندراج اور قومی شناختی کارڈز کی اجرائی) قواعد 2003 کے تحت تشکیل دیا گیا۔ اسے قاعدہ کے تحت لازمی قرار دیا گیا اور پہلی مرتبہ 2010 میں غیرمتنازع اور غیرپیچیدہ سوالات کے بغیر منعقد کرایا گیا تھا۔ تب جنوری 2009 سے لاگو کردہ ’آدھار‘ کارڈ کے ابتدائی مراحل چل رہے تھے۔ آدھار کے فروغ کو دیکھتے ہوئے اس کے ڈیٹا کو 2015 میں این پی آر کے ساتھ ضم کرکے اسے اَپ ڈیٹ کیا گیا۔ یہ اَپڈیشن کے بعد حکومت کے پاس اپنی آبادی کا معقول ڈیٹا محفوظ ہوگیا۔ اس کے باوجود مرکز نے این پی آر 2020 کیلئے فضول سوالات کا اضافہ کیا جو تنازع کا سبب بن گئے۔ جب معاملہ پیچیدہ ہوا تو حال ہی میں وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش میں کہہ دیا کہ کوئی دستاویز نہیں چاہئے، کسی کو ’ڈی‘ کیٹگری میں نہیں ڈالا جائے گا۔ مگر تحریر کے بغیر اس طرح زبانی طور پر نرمیوں کا اعلان کرنا خلاف قانون ہے۔ اس سے حکومت کا ارادہ مشکوک ہوگیا، کیونکہ خود قانونی گنجائش اور حکومت کی نرمی میں ٹکراو پیدا ہورہا ہے۔

 

علاوہ ازیں، این آر سی کی گنجائش صرف آسام کیلئے 1985 کے معاہدے کے تحت پیدا کی گئی تھی۔ اسے 2019 جنرل الیکشن کے بعد مودی۔ شاہ حکومت نے اچانک قوم کا اول ترجیحی کام بنا ڈالا ہے۔ چنانچہ حکومت نے این پی آر سے متعلق تحریر میں باقاعدہ لکھا ہے کہ یہ ملک گیر این آر سی عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔ ملک گیر این آر سی کی گنجائش کہاں سے، کس نے اور کب پیدا کردی؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اس کی عملی افادیت اور دشواریوں پر عقل لگائی گئی ہے؟ یہ سراسر احمقانہ تجویز ہے، جو قابل عمل نہیں۔

 

آئندہ دو ہفتوں میں مودی۔ شاہ حکومت کا 12 ریاستوں و مرکزی علاقوں کے مقننہ کے ذریعے کئے گئے فیصلوں پر کیا ردعمل سامنے آتا ہے، اہمیت کا حامل رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں، پی وجین، ممتا بنرجی، امریندر سنگھ، اشوک گہلوٹ، نتیش کمار، کے سی آر، اروند کجریوال جیسے سیاسی و قانونی سوجھ بوجھ رکھنے والے غیرارادی طور پر یکساں زمرہ میں آگئے ہیں۔ آگے مرکزی حکومت کی طرف سے جو بھی چیلنج سامنے آئے، اس کا ان سب کو مل جل کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ حق گو عوام ہمیشہ عوامی مفاد میں دانشمندی کا ساتھ دے گی۔ ان شاءاللہ۔
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: