مشرقی دنیا میں ہمیشہ معمر اور ضعیف حضرات کا احترام کیا جاتا رہا ہے۔ مغرب کا کلچر اس کے برعکس ہے۔ وہاں لوگ اپنے بوڑھوں کو ’اولڈ ایج ہومس‘ میں داخل کرا دیتے ہیں۔ چنانچہ حکومتوں نے بھی باضابطہ متعدد اولڈ ایج ہومس بنارکھے ہیں جن کو ہمارے پاس بیت المعمرین کہتے ہیں۔ مشرق اور مغرب کی تہذیب میں کتنا فرق ہے؟ مشرق میں لوگ اپنے گھروں میں اپنے بوڑھے ماں باپ کو گھر کی برکت کا سبب مانتے ہیں اور مغرب کے لوگ انھیں بوجھ سمجھ کر فوری اپنے سے دور کردیتے ہیں!

افسوس کی بات ہے کہ معمر، ضعیف اور بوڑھے حضرات کے تعلق سے مغرب کا کلچر اور رجحان تیزی سے مشرقی دنیا میں بھی پھیلتا جارہا ہے۔ ہندوستان اور حیدرآباد بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ عجیب حقیقت ہے کہ امیر اور خوشحال لوگوں میں اپنے معمرین کو اولڈ ایج ہوم بھیج دینے کا زیادہ رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے برخلاف غریبوں میں ایسا رجحان شاذونادر دیکھنے میں آتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کوئی غریب فرد اپنے ماں باپ کو لے جاکر بیت المعمرین میں داخل نہیں کراتا ہے، البتہ بہت زیادہ غریب ماں باپ جب اپنی زندگی کا خرچ برداشت کرنے سے مجبور ہوجائیں تو ایسے لوگ اولڈ اویج ہومس کا رُخ کرتے نظر آئیں گے۔


سے زیادہ اولڈ ایج ہومس کام کررہے ہیں جنھیں مختلف خیراتی ادارے، ٹرسٹ اور حکومتیں چلاتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ حیدرآباد اور اس کے اطراف و اکناف میں جہاں قدیم تہذیب کی جھلک اب بھی باقی ہے، 200 سے زیادہ چیارٹیبل اولڈ ایج ہومس موجود ہیں۔ حیدرآباد ہو کہ ہندوستان کے دیگر شہروں میں قائم بیت المعمرین، اُن کی ایک تہائی تعداد ایسی ہے جہاں معمرین، ضعیفوں اور بوڑھوں کو بالکلیہ فری قیام و طعام کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ بقیہ اولڈ ایج ہومس میں معمرین کہیں برائے نام اور کہیں معقول فیس دیتے ہوئے رہتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے زمرے ایسے ہیں جہاں وہ معمرین شریک ہوتے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی دستیاب نہیں رہتا ہے۔ متوسط درجہ کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق اولڈ ایج ہوم کا انتخاب کرتے ہیں جب کہ امیر خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بوڑھے معقول فیس دیتے ہوئے اولڈ ایج ہوم میں اپنے معیار کی زندگی چاہتے ہیں۔


سرکاری اور حکومتی سطح پر ریاستی اور مرکزی حکومتیں مختلف اسکیمات چلاتی ہیں جس سے بہت غریب اور غریب معمر افراد استفادہ کرسکتے ہیں۔ تلنگانہ ریاست میں بوڑھے افراد کے لیے ’آسرا پنشن‘ دیا جارہا ہے۔ یہ معمرین، بیوہ عورتوں، گوڑ کمیونٹی، فیل پا اور ایڈز کے مریضوں، جسمانی معذورین اور بیڑی ورکرس کے لیے ہے۔ مارچ 2018ءتک استفادہ کنندگان کی تعداد 42 لاکھ ہوچکی تھی۔ اسی طرح حکومت ہند بھی سینئر سٹیزنس (60 سال یا زائد عمر والے شہری) کے لئے پنشن اسکیم چلاتی ہے جو تلنگانہ کے آسرا پنشن سے کچھ مختلف ہے۔


خیراتی ادارے ہوں کہ ریاستی و مرکزی حکومتوں کی معمرین کی فلاح و بہبود کے لئے کاوشیں یہ سب معمرین کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ناکافی ہوتے ہیں۔ اولڈ ایج ہومس تک زیادہ سے زیادہ تعمیر کئے جاسکتے ہیں، لیکن عوام و خواص میں اپنے بوڑھوں کو گھروں سے نکال کر بیت المعمرین میں پہنچادینے کا بڑھتا رجحان تشویشناک ہے۔ اس کے لئے بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے!

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: