اتوار 18 اگست کو حیدرآباد میں بالخصوص ٹی ڈی پی کے بشمول دیگر پارٹیوں کے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں ورکرس بی جے پی میں اس کے قومی کارگزار صدر جے پی نڈا کی موجودگی میں شمولیت اختیار کرنے جارہے ہیں۔ میری یادداشت کے مطابق تلنگانہ یا اس سے قبل متحدہ آندھرا پردیش کی تاریخ میں پہلی بار حیدرآباد میں بی جے پی کے حق میں ایسی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ میں ایسا نہیں سوچتا کہ صرف بی جے پی قابل نفرت پارٹی ہے اور دیگر پارٹیوں پر کوئی داغ نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ آج کے انڈیا میں سبھی سیاسی جماعتیں سماج کا بدترین حصہ ہیں۔ البتہ، صرف فرقہ پرستی، تعصب، تنگ نظری، انتشار، اور استحصال کی سیاست پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے مجھے بی جے پی زیادہ ناپسندیدہ پارٹی نظر آتی ہے۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے گزشتہ تقریباً 10 مہینوں میں بہت سیاسی جادوگری دکھائی، جانے کیا کیا منصوبے بنائے، قبل از وقت ریاستی اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی درج کرائی، مگر آخرکار ٹی آر ایس کے لیے لوک سبھا الیکشن کے حیران کن نتائج اور اب سابق صدر بی جے پی و موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی مغربی بنگال کے بعد خصوصیت سے نئی جنوبی ریاست پر نظروں نے بلاشبہ ان کو سیاسی اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔ انھوں نے جنرل الیکشن سے قبل کیا کیا خواب دیکھے اور اپنے بیٹے کے ٹی آر اور بھانجہ ہریش راو کو ریاستی کابینہ سے دور رکھا تھا لیکن خود بیٹی کویتا کی حلقہ نظام آباد سے شکست اور جملہ چار بی جے پی اور تین کانگریس ایم پیز کی جیت نے سارے منصوبے بکھیر دیئے۔
کے سی آر خود کو اسٹیٹ سکریٹریٹ کی منتقلی، نئی ریاستی اسمبلی کی تعمیر جیسے ’بے وقت کی راگنی‘ جیسے کاموں میں مشغول کرتے ہوئے شاید اپنے غم غلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ حقیقت سے کب تک منھ موڑیں گے۔ امیت شاہ نے گزشتہ ماہ حیدرآباد کا دورہ کیا تھا اور 16 اگست کو اسٹیٹ بی جے پی پریسیڈنٹ کے لکشمن نے میڈیا کے لیے جو اعلان کیا وہ عملاً تلنگانہ میں بی جے پی کے بڑھتے قدم ہیں۔
چیف منسٹر تلنگانہ 2014 سے جو چالیں کانگریس کے خلاف چلتے آئے ہیں، اب وہی ان کے خلاف بی جے پی چلتی دکھائی دے رہی ہے۔ مودی حکومت کی تشکیل سے ہی کے سی آر ’دو کشتیوں کی سواری‘ میں سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن ایسی چیزیں دیرپا نہیں ہوتیں۔ کے سی آر نے 2014 سے ہر معقول اور نامعقول حکومتی اقدام میں مرکز کا ساتھ دیا اور اپنی ریاست میں مجلس کو ساتھ لے کر خود کو سارے عوام کا حقیقی نمائندہ سکیولر لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم، حالیہ پارلیمنٹ سیشن نے پورے ملک کی پارٹیوں کی قلعی کھول دی۔ اب کے سی آر کو بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ مودی حکومت کی حالیہ قانون سازی کی حمایت کرتے ہوئے کے سی آر نے شاید سوچا تھا کہ تلنگانہ کو بی جے پی ’اگلا مغربی بنگال‘ نہیں بنائے گی۔ مگر ان کی خوش فہمی بہت جلد دور کی جارہی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے، ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“۔


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: