کلیان سنگھ جیسا ’عجیب‘ لیڈر انڈین پالیٹکس میں شاید ہی کسی نے دیکھا، سنا یا پڑھا ہوگا۔ 87 سالہ کلیان وہ دور سے بی جے پی میں شامل رہے جب اس کی لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں میں عددی طاقت معمولی تھی۔ موجودہ اترپردیش کے اتراولی کی پیدائش والے کلیان سیاسی ترقی کرتے ہوئے 24 جون 1991 کو سب سے بڑی ریاست یو پی کے چیف منسٹر بن گئے، اور یہ میعاد انھوں نے اپنے اولین مقصد بابری مسجد کی 6 ڈسمبر 1992 کے انہدام کے ساتھ ختم کرلی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھوں نے بحیثیت چیف منسٹر یو پی مرکز کی نرسمہا راو حکومت اور سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بابری مسجد کے ڈھانچہ کی ریاستی حکومت حفاظت کرے گی اور ایل کے اڈوانی و دیگر کی قیادت میں ’کارسیوا‘ کو قابو میں رکھے گی۔ انھوں نے کھلے عام اقرار کیا کہ وہ بابری مسجد انہدام کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں۔ عدالت نے انھیں ایک دن کی علامتی سزائے قید دی اور وہ جیل گئے۔


 کلیان تقریباً پانچ سال بعد دوبارہ 1997 میں چیف منسٹر یو پی بنے لیکن 1999 میں مایاوتی (بہوجن سماج پارٹی) نے یو پی کی وزارت اعلیٰ کا جائزہ حاصل کرلیا۔ بعدازاں بی جے پی قیادت سے کلیان کی ان بن ہوگئی اور جن کرانتی پارٹی بناڈالی مگر وہ انتخابی سیاست میں بری طرح ناکام ہوئی۔ چنانچہ سابق چیف منسٹر نے بی جے پی میں واپسی کرلی۔ بطور انعام انھیں 2009 سے 2014 تک لوک سبھا میں حلقہ ایٹا (یو پی) کی نمائندگی کا موقع ملا۔ جب مودی حکومت قائم ہوئی تو انھیں مزید نوازتے ہوئے ستمبر 2014 میں گورنر راجستھان بنا دیا گیا اور پچھلے ماہ ان کی میعاد پوری ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی وہ پھر سے بی جے پی رکنیت حاصل کرتے ہوئے عملی سیاست کے لیڈر بن گئے اور پھر اسی موضوع پر لوٹ آئے جس کی خاطر انھوں نے چیف منسٹری کی پرواہ نہیں کی تھی۔ اب وہ منہدمہ بابری مسجد کی جگہ شاندار رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے میں مرکز اور ریاست کی بی جے پی حکومتوں کے آشیرواد سے سرگرم ہوگئے ہیں۔ہے نا کلیان سنگھ ’عجیب‘ لیڈر؟


اس قبیل میں نریندر مودی کو میں نے عمر کے اعتبار سے دوسرا ’عجیب‘ لیڈر پایا ہے۔ 69 سالہ مودی کے تعلق سے اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی کے بشمول بانیانِ بی جے پی نے کبھی قیاس تک نہیں کیا تھا ہوگا کہ وہ گجرات میں متبادل چیف منسٹر کے طور پر اکٹوبر 2001 میں ریاستی اقتدار سنبھالنے کے بعد اندرون تیرہ سال ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے اور آر ایس ایس کی نبض اچھی طرح پڑھتے ہوئے وہ سیاسی طاقت پیدا کرلیں گے جو موجودہ طور پر ان کو حاصل ہے۔ دراصل چیف منسٹر گجرات بننے کے بعد اندرون پانچ ماہ گودھرا ٹرین حادثہ مودی کی سیاسی چھلانگ کا موجب بنا۔ پھر انھوں نے سیاسی اقتدار کے سفر میں کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔


تاہم، مودی کی ابتدائی زندگی ، ان کی تعلیم، ان کی ازدواجی زندگی، ان کا خاندانی پس منظر، لگ بھگ بیس سال کی عمر سے کئی برس ان کی گمنام زندگی .... یہ تمام باتیں انھیں میرے خیال میں کچھ ’عجیب‘ اور ’پیچیدہ‘ لیڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ دامودر داس مولچند مودی اور ہیرابین مودی (حیات بہ عمر 99 سال) کے چھ بچوں میں تیسرے نمبر والے مودی کا خاندان ’مودھ۔گھن چھی۔تیلی‘ کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے، جسے حکومت ہند نے دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) زمرہ میں رکھا ہے۔ مبینہ طور پر آٹھ سال کی عمر سے وہ آر ایس ایس کی مقامی شاکھاوں کو جانے لگے۔ مودی کو ان کی خاندانی ذات کے رواج کے مطابق کم عمری (لگ بھگ پندرہ سال) میں جشودابین چمن لال مودی سے بیاہ دیا گیا، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں مودی نے رواج کے مطابق شادی بیاہ کی رسوم کو مکمل کئے بغیر گھر چھوڑ دیا۔ پھر کبھی جشودا بین نے شادی کی اور نہ نریندر مودی نے، حتیٰ کہ مودی نے جشودابین کو 2014 الیکشن سے عین قبل اپنی بیوی تسلیم کیا۔ وہ الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گئے مگر عام توقعات کے برعکس انھوں نے جشودابین کو ان کا مستحقہ مقام کبھی نہیں دیا۔ حیرت ہے کہ وزیراعظم مودی کو لڑکیوں اور شادی شدہ مسلم خواتین کی بڑی فکر رہتی ہے۔ بہرحال اپنا گھر چھوڑنے کے بعد کے کئی برسوں اور لڑکپن کے بارے میں مودی نے وقفہ وقفہ سے چونکا دینے والے دعوے کئے ہیں جن کی نہ ان کی فیملی میں سے کسی نے توثیق کی اور نہ کوئی آزادانہ ذرائع سے تصدیق کی جاسکی۔ مثلاً لڑکپن میں چائے بیچنا، سادھو طرز کی زندگی کی چاہ میں ملک کے کئی گوشوں کا سفر کرنا، کئی پہاڑی غاروں میں تپسیا کرنا، وغیرہ۔ ہے نا یہ بھی ’بہت عجیب‘؟


یوگی آدتیہ ناتھ کا میری دانست میں ملکی سیاست کے ”عجیب“ لیڈر کی فہرست میں تیسرا نمبر ہے۔ 5 جون 1972 کو پیدائش پر اجئے موہن بشٹ کا نام پانے والا نومولود نوجوانی میں سادھو یوگی بن گئے جو روایتی طور پر عورت سے دور رہتے ہیں۔ موجودہ اترکھنڈ کی پیدائش والے آدتیہ ناتھ نے 1993 میں اپنی فیملی چھوڑ دی اور اترپردیش کے ضلع گورکھپور میں گورکھ ناتھ مٹھ کے مہنت اویدیاناتھ کے چیلے بن گئے۔ مہنت اویدیاناتھ کے دیہانت پر آدتیہ ناتھ کو 12 ستمبر 2014 کو مہنت کا رتبہ عطا کیا گیا اور دو روز بعد انھیں ہندو گروہ ’ناتھ ‘ کے روایتی رسوم کے ساتھ مٹھ کا پیٹھادھیشور بنادیا گیا۔ تاہم، بی جے پی کو 1991 میں ہی اویدیاناتھ کی تائید و حمایت حاصل ہوگئی تھی اور 1994 میں گورکھ ناتھ مٹھ کا جانشین مقرر کئے جانے کے بعد ریاضی کے گرائجویٹ آدتیہ ناتھ تیزی سے سیاسی طور پر بھی سرگرم ہوگئے۔


یوگی آدتیہ ناتھ 1998 میں پہلی بار لوک سبھا کے لیے حلقہ گورکھپور سے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی یوتھ ونگ ’ہندو یووا واہنی‘ تشکیل دی جو مشرقی اترپردیش میں اپنی سرگرمیاں چلاتی رہی ہے اور آدتیہ ناتھ کے عروج کا موجب بھی بنی۔ وہ 12 ویں لوک سبھا میں 26 سال کی عمر نوجوان ترین رکن رہے۔ وہ 1998 سے لگاتار پانچ میعادوں تک پارلیمانی ایوانِ زیریں کے لیے منتخب ہوتے رہے، یہاں تک کہ رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ کو 2017 کے اترپردیش اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی زبردست جیت پر چیف منسٹر کے عہدہ سے نوازا گیا۔ بعد میں یوپی قانون ساز کونسل کے ممبر بنے۔ تاحال ڈھائی سالہ میعاد میں چیف منسٹر یو پی نے جس نوعیت کی حکمرانی فراہم کی ہے، وہ انھیں ’عجیب‘ لیڈر اور کلیان سنگھ اور نریندر مودی کا مکسچر (امتزاج) بناتے ہیں۔


بھرپور خط ِ اعتماد حاصل کے بعد یوگی کی بی جے پی حکومت نے یو پی میں عوام کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے انتخابی منشور کے ایک وعدہ ’کسانوں کے مخصوص قدر والے قرض کی معافی‘ کی تکمیل کے علاوہ صرف اور صرف ہندوتوا ایجنڈے کی کھلے عام تعمیل پر اپنا پورا دھیان لگا رکھا ہے۔ ایودھیا میں منہدمہ بابری مسجد کی جگہ شاندار رام مندر کی جلد از جلد تعمیر یوگی حکومت کے ایجنڈے میں ترجیحی معاملہ ہے۔ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی برقراری کے نام پر ڈھائی سال میں درجنوں انکاونٹر کئے جاچکے ہیں۔ تین طلاق کا قانون بنتے ہی ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اترپردیش تین طلاق کا مرکز ہے۔ وقفے وقفے سے مقدمات درج ہورہے ہیں، مرد گرفتار ہورہے ہیں، خاندان پریشان ہورہے ہیں۔ یہ مودی حکومت کی دانست میں شادی مسلم خواتین کا ’تحفظ‘ ہے۔ واہ رے، تحفظ۔ ہجومی تشدد یو پی کے پڑوس اترکھنڈ سے شروع ہوا اور یو پی میں سبودھ کمار انڈیا کا واحد غیرمسلم شکار بنا۔ مجرمین آزاد گھوم رہے ہیں۔ اب تو کملیش تیواری جیسے ہندوتوا لیڈر کا تک قتل ہونے لگا ہے، جس کے بارے میں خود فیملی کے تبصرے یوگی حکومت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بہرحال متنازع تقریروں اور آمرانہ فیصلوں کے لیے مشہور 47 سالہ چیف منسٹر یوگی سیاسی اعتبار سے بہت کم عمر ہیں۔ اس عمر میں ان کا یہ حال ہے تو آگے دس، بارہ سال میں کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ 

۔۔۔

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: