میں سوشل میڈیا جیسے واٹس اَپ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ کا کبھی شیدائی نہیں رہا۔ میں اسے کم از کم ترقی پذیر دنیا بشمول ہندوستان اور پاکستان میں سوسائٹی یا سماج کیلئے فائدہ کم ، نقصان زیادہ مانتا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا اس میڈیا سے کوئی ناطہ نہیں، میں اسے استعمال نہیں کرتا۔ تاہم، میں اس کے وجود میں آنے سے لگ بھگ 10 سال پہلے سے اصل دھارے کے میڈیا سے وابستہ ہوں، جس کیلئے میں نے باضابطہ تعلیم پائی، جیسا کہ کسی بھی پیشہ سے وابستگی کیلئے ہوتا ہے۔ 


اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا کہ دنیا کے کسی بھی شعبہ میں جب تک متعلقہ علمیت اور قابلیت نہ ہو، اس شعبے سے انصاف کرنا یا اس کے تحت اچھی کارکردگی پیش کرنا ممکن نہیں رہتا۔چنانچہ یہی نکتہ مجھے سوشل میڈیا کے تعلق سے لگ بھگ ہمیشہ شاکی رکھتا ہے۔ آج کمسن سے لے کر بوڑھے تک، گنوار سے لے کر اسکولی تعلیم ترک کرنے والے شہری تک، سرکاری یا خانگی روزگار کرنے والوں سے لے کر گرہست خواتین تک .... جس کسی کے پاس اسمارٹ فون اور انٹرنٹ تک رسائی ہو، وہ سوشل میڈیا کا ممبر بن چکا ہے۔ 


جس طرح پیدائش کے ساتھ ہی نومولود کو متعلقہ شہریت مل جاتی ہے، کچھ اسی طرح اسمارٹ فون اور انٹرنٹ کنکشن ہر کس و ناکس کو ”لائسنس“ کا حامل بنا رہا ہے کہ وہ جو چاہے اطلاع اِدھر سے اُدھر کردے، چاہے وہ کوئی تحریر ہو، کوئی آڈیو یا کوئی ویڈیو پیام۔ اس کی صداقت، اس کی حقیقت، اس کی تصدیق سے اس ”سوشل میڈیا مہارتھی“ کو کوئی سروکار نہیں۔ وہ دھڑلے سے لوگوں کو گمراہ کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ سماجی، سیاسی افکار، نظریات، مذہبی رجحانات کو دوسروں پر تھوپنا ایسے لوگوں کا اولین فرض بن جاتا ہے۔


دستور، حکومت، مقننہ، عدلیہ اور دیگر نظم و نسق کے بارے میں اوٹ پٹانگ تبصرے، کارٹونس جب حد سے متجاوز ہونے لگے اور لوگوں میں ٹکراو کی وجہ بننے لگے تو حکومتوں کو شکنجہ تیار کرنا پڑا اور اب متنازع پوسٹ پر سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ کی مدد سے گرفتاریاں ہونے لگی ہیں۔ حکومتوں نے ’اڈمین‘ پر زیادہ ذمہ داری ڈالی ہے۔ چنانچہ ایک حالیہ مثال پیش کرتا ہوں کہ متنازع بابری مسجد۔ رام جنم بھومی اراضی کی ملکیت کے سپریم کورٹ فیصلے کے اعلان کے موقع پر کئی واٹس اپ گروپوں میں اڈمینس نے اپنے گروپ کو عارضی طور پر ممبرز کی طرف سے پوسٹ کیلئے بند رکھا، ایسی صورت میں صرف اڈمینس پوسٹ کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات اب ناگزیر ہوگئے ہیں۔


میری تحریر یہ جواز پیدا کرنے کیلئے نہیں ہے کہ پروفیشنل جرنلسٹس اور صرف ذمہ دار سرکاری و خانگی حکام کے علاوہ عام لوگوں میں سے کوئی سوشل میڈیا استعمال نہ کرے۔ جس کسی کو یہ سہولت میسر ہو، وہ اسے ضرور استعمال کرے، لیکن جس طرح حقوق کے ساتھ فرائض جڑے ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے حقوق کے ساتھ متعلقین پر فرائض بھی عائد کرنا ضروری ہے۔ ان کو احساس ہو کہ کسی بھی نوعیت کی اطلاع کے بارے میں اسے یقین کے ساتھ کوئی جانکاری نہ ہو تو اسے پوسٹ کرنے سے پوسٹ نہ کرنا بہتر ہے۔ جو کوئی خلاف ورزی کرتا پایا جائے، اس کے خلاف کارروائی میں جیسے جیسے تیزی آئے گی، سوشل میڈیا کا بے جا استعمال گھٹتا جائے گا۔


میں بلا شک و شبہ مانتا ہوں کہ کوئی بھی ایجاد یونہی بے مقصد اور فضول نہیں ہوتی ہے۔ ہم ترقی پذیر ملکوں والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری توجہ منفی استعمالات پر زیادہ اور مفید استعمال پر کم جاتی ہے۔ یہی واٹس اپ، فیس بک وغیرہ جو غیرترقی یافتہ ملکوں میں زیادہ تر اپنے وقت، توانائی اور پیسہ کو ضائع کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہی سوشل میڈیا کا ترقی یافتہ ملکوں میں الٹا معاملہ ہے، وہاں خراب استعمال کم اور مفید استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ 


ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، گلف وغیرہ میں اصل دھارے کا میڈیا، سرکاری و خانگی ادارہ جات خصوصیت سے واٹس اپ کا بھرپور مفید استعمال کررہے ہیں۔ بزنس مین طبقہ کیلئے بھی یہ بہت کام کا ذریعہ بن گیا ہے۔ یہ تمام شعبے اپنی معلومات، فائلوں، تصاویر وغیرہ کا متعلقہ گوشوں کے ساتھ بروقت تبادلہ کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں، جس سے ان کا کام بڑا آسان ہوگیا ہے۔ میں خود کئی واٹس اپ گروپس کا حصہ ہوں، متعدد افراد کے ساتھ انفرادی ربط میں رہتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ اس میڈیا کو ہم چاہیں تو فیملی سے ہمیشہ ربط میں رہنے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، روزمرہ کی بھاگ دوڑ بھری زندگی کا تناو دور کرنے دوست احباب کے ساتھ ذہن کو تازہ دم کرنے والی ہلکی پھلکی سرگرمی کیلئے استعمال کرسکتے ہیں، معلومات آفریں مباحث کے گروپس بنا سکتے ہیں، سنجیدہ نوعیت کے تبادلہ خیال کی گنجائش بھی نکال سکتے ہیں، عام نوعیت کی گفتگو کیلئے جنرل گروپس تشکیل دے سکتے ہیں۔ بہرحال، ہم چاہیں تو کسی ایجاد کا بہترین استعمال کرسکتے ہیں، نہ چاہیں تو فضولیات میں وقت ضائع ہوگا۔


٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: