احسن الخالقین کی کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ انسان کیلئے خالق حقیقی نے دیگر مخلوقات کو مسخر کردیا ہے۔ اتنے اکرام کے باوجود انسان کوئی فرشتہ نہیں ہے۔ بلکہ دونوں مخلوقات میں یہی تو فرق ہے کہ فرشتوں کو اپنی مرضی سے کچھ بھی کرنے کی آزادی نہیں ہے، اس لئے ان کی آزمائش لینے کا سوال ہی نہیں۔ اس کے برخلاف انسان سے ہمیشہ غلطی غلطیاں ہوتی رہی ہیں ، ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ اسی آزمائش کیلئے تو انسان کو اِس دنیا میں مقررہ وقت تک کیلئے رکھا گیا ہے، جس کے بعد جزا سزا کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ آخرت میں کریں گے۔ باری تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے، ”ہم کسی کا بوجھ کسی اور پر نہیں ڈالیں گے “ اور ” رتی برابر نیکی کا بدلہ بھی دیا جائے گا، اور رتی برابر برائی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا “۔ یعنی کسی بھی انسان کو کسی دیگر کے عمل اعمال پر فکرمند ہونے کی حد سے زیادہ ضرورت نہیں ، الا یہ کہ دیگر پر اسے مکلف بنایا گیا ہے۔ اور اگر دینی حمیت کی بنا فکرمند ہونا فطری امر ہے تو اس فکرمندی میں اسے اتنا نہیں ڈوب جانا چاہئے کہ خود خواہ مخواہ گناہ میں پڑجائے۔


” جو ہے نام والا ، وہی تو بدنام ہے “ یہ فقرہ ہر دور میں صادق رہا ہے اور آج بھی ہے، مستقبل کا مجھے اندازہ نہیں، کیوں کہ عام انسان ہونے کے ناطے مجھے غیب کا علم نہیں ہے۔ میں نے اوپری سطور میں مستقبل کا صیغہ اس لئے استعمال کیا، کیوں کہ وہ بات قرآن مجید سے ثابت ہے کہ انسان کو ابلیس نے تاقیامت بھٹکانے، ورغلانے، گناہ پر اکسانے اور اس طرح صراط مستقیم سے ہٹا دینے کی کوشش کرنے کی اللہ تعالیٰ سے اجازت لے رکھی ہے۔ میری تحریر کے عنوان ” لوگ، انسانوںمیں فرشتے کیوں ڈھونڈے ہیں؟ “ کے پیش نظر یہ تمہید ضروری تھی، کیوں کہ جب تک مذکورہ بالا باتوں سے واقفیت نہ ہوجائے، آگے کی سطور پڑھنا فضول ہے۔ کچھ راقم سطور کے بارے میں جان لیجئے : ” میں پیدائشی طور پر حیدرآبادی ہوں، بلکہ میں میرے آبا و اجداد بھی حیدرآبادی رہے ہیں۔ مجھے روزنامہ سیاست حیدرآباد میں نیوز ڈیسک پر کام کرتے ہوئے زائد از 23 سال ہوچکے ہیں۔ “


حالیہ 25 تا 27 اکٹوبر شہر میں ” جشن نکاح “ کے عنوان سے خالصتا ً بزنس ایونٹ کا اہتمام ہوا، جس میں ’ سیاست ‘ کا نمایاں رول رہا۔ اس ایونٹ کیلئے جو عنوان دیا گیا، وہ خود مجھے مناسب معلوم نہ ہوا، لیکن میں اس کیلئے مکلف نہیں۔ لہٰذا، مجھے ایڈیٹر صاحب، یا عنوان دینے والوں پر واویلا کرنے، انھیں کوسنے، ان کو بددعائیں دینے، اور فضول غیبت کا مرتکب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں کو تو سرے سے بزنس ایونٹ پر ہی اعتراض ہوا، ان کی اپنی منطق ہے، جس سے تمام انسانوں کو متفق ہوجانا چاہئے، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ ایک سابق ملازم ’ سیاست ‘ اور ایک محترمہ نے ’ سیاست ‘ کے خلاف سوشل میڈیا پر تحریری طور پر اور آڈیو کے ذریعے جم کر بھڑاس نکالی ہے۔ میں نے تحریر پڑھی، اور آڈیو بھی سنا ہے۔ محترمہ اپنی تنقیدوں میں جذبات سے اس قدر مغلوب ہوگئیں کہ وہ زندگی اور موت کے تعلق سے بھی بول گئیں، ایسے جیسے کہ انھیں غیب کا علم ہے، حالانکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ غیب کا علم تو صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ بعض قارئین اب اس تحریر کو آگے نہیں پڑھیں گے، کیوں کہ بعض لوگوں کو صرف منفی پہلو کریدنے کی عادت ہوجاتی ہے، ان کیلئے مثبت پہلو پر نظر ڈالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرا مطلب واضح ہے کہ ہر چیز، ہر کام، ہر فرد، ہر شخصیت، ہر نامور شخص میں برائیوں کے ساتھ اچھائیاں بھی ضرور ہوتی ہیں۔ اگر اچھائیاں نہ ہوں تو وہ نام والا (مثبت طور پر) نہیں ہوسکتا۔ ” شر میں خیر “ کے مصداق ’جشن نکاح ‘کے معاملے سے مجھے اس تحریر کیلئے تحریک ملی ۔ اور میں یہ نکتہ پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ایسی شخصیتیں مل جائیں گی، جو نامور ہیں، لیکن ان پر بعض الزامات بھی ہیں۔ 


رکن لوک سبھا (حلقہ حیدرآباد)و صدر مجلس اسد الدین اویسی بلاشبہ آج ملک و بیرون ملک مشہور سیاسی لیڈر ہیں۔ 50 سالہ اسد اویسی 1994 سے عوام کے ہاتھوں لگاتار ایم ایل اے ایم پی منتخب ہوتے آئے ہیں، جو کوئی آسان کام نہیں۔ اس درمیان مجلس پر بابری مسجد کی شہادت کے مسئلہ پر برا وقت بھی آیا، جب متحدہ آندھرا پردیش میں مجلس کی ریاستی مقننہ میں عددی طاقت گھٹ کر 1 ہوگئی تھی، اور وہ 1 رکن اسد اویسی ایم ایل اے (حلقہ چارمینار) تھے۔ اس کے بعد عوام نے دوبارہ
مجلس پر بھروسہ کیا جو تاحال جاری ہے۔ اس دوران مجلسی قیادت پر مختلف گوشوں سے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں، اور کئی اقدامات میں شکوک و شبہات واضح نظر آئے، لیکن نہ صرف یہ دنیا ثبوت مانگتی ہے، بلکہ آخرت میں انصاف بھی ثبوت کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا۔ یہ سچ ہے کہ اسد اویسی نے اپنے انتخابی جلسوں میں عوام پر زور دیا کہ وہ شادی بیاہ کیلئے قرضوں میں مبتلا نہ ہوں، نکاح کی تقریب تو چائے بسکٹ کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم، خود انھوں نے جب اپنی بیٹی کی شادی کی تو بتایا جاتا ہے کہ کروڑہا روپئے خرچ کئے گئے۔ اب اسد اویسی کو ان کی انتخابی تقریر کے الفاظ اور ان کی بیٹی کی پرشکوہ تقریب نکاح کے تناظر میں ہی دیکھا جائے اور معاملے کے دونوں پہلووں پر کھلے ذہن سے غور کئے بغیر ان کو قول و فعل میں تضاد کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ہر کس و ناکس فیصلے صادر کرنے لگے تو کسی کیلئے بھی اچھا نہیں ہوگا۔ کسی انسان کو دولت مند پیدا کرنا یا دولت مند بنانا، کسی کو غربت میں پیدا کرنا اور غریب ہی رکھنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ اگر وہ تمام انسانوں کو دولت مند پیدا کردیتا تو ذرہ برابر مشکل نہ تھا مگر خود انسانوں کیلئے بڑی مشکل ہوجاتی، اور سب کو غریب رکھتا تو بھی مشکل ہوجاتی۔ اگر اسد اویسی نے اپنی دولت کو اسراف کی نذر کیا ہے تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ کسی اور سے لینے والا نہیں، جس کی دولت ہے، اسے ہی جواب دینا پڑے گا۔ تو خواہ مخواہ، ہم کیوں کسی کے انفرادی اعمال پر فکرمند ہوں۔ یہ جواز بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ عوامی لیڈر ہیں، اس لئے لوگوں پر ان کے اعمال کا اثر پڑسکتا ہے۔ دوبارہ واضح کردوں کہ اثر پڑنا اور اثر قبول کرکے خود عمل کرنا، یہ مختلف باتیں ہیں۔ انسان کو اس کے عمل کا جواب دینا ہے، غلط کام کا دل میں خیال آنے کا نہیں۔


حاسدین ناقدین نے موہن داس کرمچند گاندھی، محمد علی جناح کو نہیں بخشا۔ دیگر شعبوں میں دلیپ کمار (یوسف خان)، لتا منگیشکر، امیتابھ بچن، مکیش امبانی، این چندرا بابو نائیڈو، سونیا گاندھی، نریندر مودی، عمران خان، محمد اظہر الدین، اور نہ جانے کتنی نامور شخصیتیں کسی نہ کسی مرحلے پر کسی نہ کسی وجہ سے شدید تنقیدوں کا نشانہ بنی ہیں۔ لیکن ان کے عمل کیلئے وہی ذمہ دار ہیں، اور جہاں تک کوئی الزام کا معاملہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے دعوے کا ثبوت لے آو۔ بابری مسجد کی شہادت میں کئی نام مشکوک ہیں، ثبوت کس کے پاس ہے؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر (ڈبلیو ٹی او) کا 9/11 واقعہ کس نے کیا، کیا کسی نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے؟ اسامہ بن لادن کو جس طرح قربانی کا بکرا بنایا گیا، کیا ہم میں سے ہر کوئی اس پر مطمئن ہے؟ گجرات فسادات 2002 میں موجودہ وزیراعظم کا نام ساری دنیا نے لیا، کیا کسی نے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے، جس کی بنا پر عدالت دو ٹوک فیصلہ سنا سکے؟ 


’ سیاست ‘ سن 1949 سے صرف ’ جشن نکاح ‘ کا اہتمام نہیں کررہا ہے، مجلسی قیادت 1960 سے اپنی بیٹیوں کی شادیوں پر کروڑہا خرچ کرتی نہیں آرہی ہے۔ ہم سب انسان ہیں، لغزش ہونا فطری امر ہے، لیکن ہمیں وہیں اٹک نہیں جانا چاہئے۔ خدارا، وسیع النظری اور وسیع القلبی سے کام لیں تو یقینا شیطان کو اپنی کارگزاری بتانے کا کم موقع ملے گا۔ میں نہیں کہہ رہا کہ غلطی گناہ کی نشاندہی نہ کرو اور لب کشائی سے گریزاں رہو۔ بلکہ میں مثبت پہلووں پر بھی نظر ڈالنے کا مخلصانہ مشورہ دے رہا ہوں، چاہے آپ اسے قبول کریں، یا ٹھکرا دیں۔ آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔
٭٭٭


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: