فلمی اداکاری میں دلیپ کمار (یوسف خان) تو اسی درجہ پر بلاشبہ گلوکاری میں لتامنگیشکر کا مقام ہے۔ گزشتہ دو تین دنوں سے لتا منگیشکر کے دیہانت کی افواہیں گشت کررہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اسے بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے میں کافی جلدی میں دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں کوئی پرواہ نہیں کہ یہ خبر درست سچ ہے یا نہیں۔ وہ تو سچائی سے آگاہ کرنے پر بھی بے پرواہ معلوم ہوئے۔ یہ ہمارے سماج میں عجیب رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ 


حال میں 90 ویں سالگرہ منانے والی لتا منگیشکر کے تعلق سے افواہیں اِس ہفتے کے اوائل ممبئی کے بریچ کینڈی ہاسپٹل میں ان کو شریک کرانے کے ساتھ شروع ہوئیں۔ دراصل انھیں سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر دواخانے سے رجوع کیا گیا تھا جہاں ان کو حسب ضرورت انٹنسیو کیئر یونٹ میں رکھا گیا۔ دو یوم بعد لتا منگیشکر کو ڈسچارج کردیا گیا اور آخری اطلاع تک وہ اپنی قیامگاہ پر مستحکم حالت میں ہیں۔ لتا منگیشکر نے اپنی کمیونٹی کی مذہبی رسم کے تحت شادی نہیں کی۔ اس لئے ’بلبل ہند‘ کہی جانے والی لجنڈ سنگر کی نگہداشت دلیپ کمار جیسی ہونا ممکن نہیں ہے جہاں ان کی شریک حیات سائرہ بانو اپنے شوہر کی خدمت و تیمارداری کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہیں۔


11 ڈسمبر کو دلیپ کمار کی حیات رہے تو ان کی 97 ویں سالگرہ ہوگی۔ میگا اسٹار امیتابھ بچن 77 برس کے ہوچکے ہیں۔ لگ بھگ تین سال قبل دونوں اسٹارس کی موت کی افواہیں تو لتا منگیشکر سے کہیں زیادہ زور و شور سے گرم تھیں۔ بار بار وضاحت اور خبر جھوٹی ہونے کی اطلاع دینے کے باوجود لوگ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن ہنوز زندہ ہیں۔ ہمہ جہت فلمی شخصیت قادر خان کے تعلق سے بھی ایسا ہی ہوا تھا (اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے)۔ مزید کئی نامور شخصیتوں کو لوگوں نے یونہی مارا ہے۔ فلمی دنیا زیادہ تر شکار ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ شہرت کے معاملے میں اسٹارس زیادہ مقبول عام ہوتے ہیں۔ 


میں سوچتا ہوں کہ اگر آپ کو اپنے کام کی جگہ کوئی اطلاع دے کہ تمہارے والدین میں سے کسی کا انتقال ہوگیا، یا تمہاری اولاد میں سے کوئی اب اس دنیا میں نہیں رہا، پھر وہ خبر افواہ ثابت ہو تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا، آپ کے جذبات و احساسات کیا ہوں گے؟ مجھے اندازہ ہے کہ بے حس اور غیرذمہ دار ناقدین فوری تاویل پیش کریں گے کہ دلیپ کمار، امیتابھ بچن، لتا منگیشکر کونسے ہمارے رشتے دار ہیں؟ بس مجھے سوشل میڈیا پر ان سے متعلق پوسٹ ملا، وہ وی آئی پی ہیں، اس لئے میں نے وہ پوسٹ آگے بڑھا دیا۔ اس کے جواب میں میری مثال کافی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی فرد ہمارا قریبی یا دور کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، جب اس کے تعلق سے ہم کو غیبت سے تک منع کیا گیا ہے، تو پھر اس کے مرنے کی خبر کو بلا سوچے سمجھے کیونکر پھیلایا جاسکتا ہے، جب کہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسی خبروںمیں سوشل میڈیا پر زیادہ تر ’ہنسی مذاق‘ ہی ہوتا ہے تو پھر آپ کو کیا کسی نے وی آئی پیز کے رشتے داروں تک سوشل میڈیا کے ذریعے انتقال کی خبر پہنچانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے؟


ہم نسل در نسل سنتے آرہے ہیں کہ کسی کے مرنے کی جھوٹی خبر پر اس فرد کی عمر کچھ لمبی ہوجاتی ہے۔ اس کی میرے پاس کوئی منطق تو نہیں، اور نہ کسی معتبر مذہبی یا دنیوی ذریعے سے اس کی تصدیق ہوئی ہے، لیکن اس معروف گمان میں کسی کا نقصان نہیں، اس لئے میں نے ذکر کیا ہے۔ جہاں تک پیرانہ سالی اور خاص طور پر 90 سالہ عمر کی بعد والی زندگی کا معاملہ ہے، متعلقہ فرد کی صحت میں اونچ نیچ ہوتے رہنا عام بات ہے۔ دواخانوں کے چکر بڑھ جاتے ہیں اور ہر چکر کے ساتھ لوگوں کی چہ میگوئیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔


مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو خالق کائنات کا کہنا ہے کہ وہ پیدائش کے بعد انسان کو چاہے تو ایسی عمر تک بھی پہنچاتا ہے جہاں انسان دوبارہ کم سنی والی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ ایک پہلو تو یہ ہے کہ بوڑھے افراد بے بس رہتے ہیں، دوسروں پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ تاہم، دوسرا پہلو یہ ہے کہ پیدائش پر یا کم سنی میں کسی فرد سے کیا گناہ سرزد ہوسکتا ہے؟ چنانچہ بوڑھوں اور زیادہ بوڑھوں کے ساتھ بھی کم از کم ظاہری طور پر یہی معاملہ رہتا ہے کہ ان سے نوجوانوں اور ادھیڑ عمر والے افراد کے مقابل گناہ شاید ہی سرزد ہوتے ہیں۔ یعنی پیرانہ سالی کی زندگی گناہ کے اعتبار سے پاک گزرتی ہے۔ روایتوں میں ہے کہ رب العالمین ہر تکلیف کے ساتھ انسان کا کوئی گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بوڑھوں کو اپنی آخری عمر شاید اوپر والے نے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے بخشی ہے؟اس کے علاوہ انسان چاہے کسی مذہبی عقیدہ کو ماننے والا ہو، اسے اپنی پیرانہ سالی کے دوران اپنے مالک حقیقی سے صدقِ دل سے رجوع ہونے کا معقول موقع مل جاتا ہے۔
٭٭٭


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: