ہر شہری کی چاہت ہوتی ہے کہ وہ چاہے تاجر ہو، تنخواہ دار ملازم ہو کہ وظیفہ یاب .... اپنی جمع پونجی میں کسی نہ کسی جتن کے ذریعے اضافہ کرے۔ ٹھیک ہے، اس میں کوئی برائی نہیں! تاہم، جب اس دھن میں عوام فریبی سرمایہ کاری اسکیمات میں پھنس کر اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں تو یہ بہت بری بات ہے۔ وہ اس لئے کہ جب آدمی کی خواہش اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی ہو تو اُسے یہ دیکھنا، جانچنا اور اطمینان کرلینا لازم ہے کہ وہ اُس کی رقم جہاں مشغول ہونے جارہی ہے، کیا وہ بھروسہ کے لائق ہے، وہ ادارہ یا تنظیم اُسے دھوکہ تو نہیں دیں گے؟ اگر ان باتوں کا اطمینان کئے بغیر بھولے پن بلکہ احمقانہ پن سے اپنی پونجی غیروں کو سونپ دیں اور آگے چل کر وہ اس سے محروم ہوجائیں تو سب سے پہلے خود سرمایہ دار اپنے کئے کا ذمہ دار ہے!
ملک میں ’پانزی‘ Ponzi اسکیمات کا معاملہ برسہابرس سے چلا آرہا ہے، لوگ لگاتار بے وقوف بنتے رہے ہیں، لیکن بیداری حیران کن طور پر ندارد ہے! خود حیدرآباد میں لگ بھگ 1980ءکا ’المیزان‘ میری یادداشت میں ہے جس نے بالخصوص مسلمانوں کو راغب کرنے مذہبی طور پر ممنوع چیز کی آڑ میں ’بلاسودی کاروبار‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سینکڑوں بھولے بھالے ارکان برادری کو معاشی زک پہنچائی۔ مزید درجنوں فریبی اسکیمات میں ’الفلاح‘ اور ’چارمینار بینک‘ بھی حیدرآباد کی نمایاں مثالیں ہیں۔ 
بیرون حیدرآباد بھی ایسی دھوکے باز معاشی سرگرمیوں کا معاملہ کچھ کم تشویشناک نہیں۔ بعض جگہ جیسے مدھیہ پردیش، اترپردیش، چنڈی گڑھ میں تو سائبرکرائم میں اب بدنام زمانہ افریقی ملکوں کی ’برابری‘ ہورہی ہے۔ ماضی قریب میں مغربی بنگال کی ’شردھا‘ اسکیم پر بہت ہنگامہ ہوا۔ اس معاملے نے ممتا بنرجی حکومت کو پشیمانی میں ڈالا ہے۔ مرکزی تحقیقاتی ادارے اس پورے ’دھوکے‘ کی سخت انکوائری میں سرگرم ہیں۔
تازہ مثال کرناٹک سے سامنے آئی، جس میں آئی ایم اے گروپ کے سربراہ منصور خان کو سینکڑوں سرمایہ داروں کی رقم دھوکے سے اینٹھ لینے کے الزامات پر جمعہ کو نئی دہلی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے گرفتار کرلیا ہے۔ منصور خان پر زائد از 1,400 کروڑ روپئے کے غبن کا الزام ہے اور عجیب بات ہے کہ وہ خود ایک سیاسی لیڈر سے 400 کروڑ روپئے کا دھوکہ کھانے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ بہرحال، سیاسی لیڈر پر الزام آرائی سے منصور خان اپنی کرتوت کا خمیازہ بھگتنے سے بچ نہیں سکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک عوام جلد امیر بن جانے کی دھن میں شاطر دھوکے بازوں کے سامنے بے وقوف بنتے رہیں گے۔ آخر انھیں کب عقل آئے گی کہ اپنی پونجی کو بڑھانے کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے خود ہی کچھ جتن کرسکتے ہیں تو کریں، ورنہ اپنی پونجی کو کم از کم سلامت رکھیں، جو وقت ضرورت اُن کے ہی کام آئے گی۔ رقم کو دگنی یا اور زیادہ کرنے کے لالچ میں اصل سرمایہ سے ہی محروم ہوجانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ جب تک عوام کی ذہنیت بدلے گی نہیں، سماج یا حکومت کے لیے بھی شاید اُن کا بھلا کرنا مشکل ہے!


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: