گزشتہ ماہ کے وسط میں نربھئے کیس کے درندہ صفت چار مجرمین کو تہاڑ جیل دہلی میں 22 جنوری 2020 کو یکے بعد دیگر پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ پھانسی پر عمل آوری سے چند روز قبل یکایک مجرمین، لواحقین اور متعلقہ وکلا ءبالخصوص ہوشیار و چالاک اے پی سنگھ تیزی سے حرکت میں آگئے۔ پے در پے صدرجمہوریہ سے رحم کی اپیلیں اور سپریم کورٹ میں نت نئے قانونی نکات کو لے کر درخواستیں داخل کرنے لگے۔ نہ صرف وکلاءبرادری بلکہ میرے خیال میں اوسط درجہ کے پڑھے لکھے شہری کو بھی معلوم ہے کہ تمام قانونی و دستوری پہلووں پر غور کرنے کے بعد ہی سزائے موت سنائی جاتی ہے اور جب اس پر عمل درآمد کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو یونہی لاپرواہی سے نہیں ہوتا۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھانسیوں کو ٹالنے کیلئے سب کچھ ہورہا ہے، جن پر اتفاق سے ایک دن میں عمل درآمد کا فیصلہ ہوا ہے۔ 22 جنوری کو پھانسیاں ملتوی کردی گئیں اور اب تین ہفتے گزر چکے ہیں۔ نربھئے کیس کا منطقی انجام ہنوز تعطل سے دوچار ہے۔ مزید عجیب تبدیلی دیکھئے کہ اتنے عرصے میں نربھئے کیس کی شکار طالبہ کے والدین انصاف کی تکمیل کیلئے جدوجہد اور احتجاج کرتے رہے ہیں۔ ایسا شاید پہلی بار ہورہا ہے کہ پھانسی کی سزا والے مجرمین کے رشتے داروں نے بھی احتجاج شروع کردیا ہے کہ ان کو پھانسی نہ دی جائے۔

 

دہلی کی ایک یونیورسٹی کی ریسرچ رپورٹ میں کہا گیا کہ محتاط اندازے کے مطابق آزاد بھارت میں 1300 سے زیادہ سزائے موت دیئے جاچکے ہیں۔ ان میں بمشکل 5 فیصد مسلمان ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار سرکاری نہیں ہیں، لیکن ان سے ملک میں دی گئی سزائے موت کے بارے میں عمومی اشارہ ملتا ہے۔ یہ مصدقہ ہے کہ آزادی کے بعد پہلی پھانسی گاندھی جی کے قاتل نتھورام گوڈسے کو دی گئی۔ تاہم، مجھے کہیں یہ مواد نہیں ملا کہ ایک دن میں چار ہندووں کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ 

 

ڈسمبر 2012 کے نربھئے کیس کو سات سال گزر چکے ہیں۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کے مترادف ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ 22 جنوری کو پھانسی کی تاریخ طے ہوجانے کے باوجود یکایک اس کو ملتوی کیا جانے لگا اور ابھی تک نئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔ 8 فبروری کو دہلی اسمبلی الیکشن تھا۔ کیا مودی حکومت کو ڈر ہوا کہ الیکشن سے دو ہفتے قبل چار ہندووں کو پھانسی پر لٹکانے کا انتخابات میں بی جے پی کے امکانات پر اثر پڑے گا؟ اگر یہ سچ ہے تو بی جے پی کو اس کے بغیر بھی شکست ہوچکی ہے۔ اب چند روز میں نربھئے کیس میں اقل ترین انصاف ”پھانسی“ ہوجانا چاہئے۔

 

اگر پھانسی کے معاملے کو یونہی ٹالا جاتا رہے تو پھر مجھے کہنا پڑے گا کہ مودی حکومت ایک دن میں چار ہندو مجرمین کو پھانسی پر لٹکانے سے خوفزدہ ہے۔ یہی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد ممبئی دھماکے کیس 1993 کے مجرم یعقوب میمن کو پھانسی دینے میں دیر نہیں لگائی، حالانکہ اُس وقت لواحقین نے نہیں بلکہ ملک بھر کی مسلم سیاسی قیادت نے احتجاج کیا تھا کہ سزا کو عمر قید تک گھٹایا جائے۔ مودی حکومت یا عدالتوں یا صدرجمہوریہ (پرنب مکرجی) کی طرف سے پھانسی کو ٹالنے کی کوئی بھی کوشش کو قبول نہیں کیا گیا۔ مودی حکومت کو اب کیا ہوگیا ہے؟

 

کیا یہ نہ سمجھا جائے کہ آٹھ ماہ بعد اکٹوبر میں بہار اسمبلی الیکشن مقرر ہے۔ وہاں نتیش کمار کی جنتادل(یو) اور بی جے پی کی مخلوط حکومت قائم ہے۔ لگاتار اسمبلی انتخابات ہارنے کے بعد مودی، امیت شاہ کی قیادت بے چین، بے قرار و مضطرب ہوگی کہ بہار میں کسی طرح اپنا اقتدار برقرار رکھا جائے۔ بہار پسماندہ ریاست ہے۔ ہندو کمیونٹی میں ذات پات، طبقہ کی بہت اہمیت ہے۔ بہار میں اعلیٰ ذات کے کم اور دیگر بشمول دلتوں کے ووٹ زیادہ ہیں۔ اتفاق سے چاروں نربھئے کیس مجرمین ”دلت“ بتائے جاتے ہیں۔ اب کیا نربھئے کیس کے مجرمین کی پھانسی اکٹوبر کے بعد تک ٹال دی جائے گی؟
٭٭٭

మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: