ہندوستانی دستور کے دسویں شیڈول کو جسے اینٹی ڈیفکشن ایکٹ (قانون انسداد انحراف) کہا جاتا ہے، اُس میں 1985ءمیں راجیو گاندھی دورِ حکومت کے دوران ترمیم کی گئی تاکہ ایسے انحراف سے لیجسلیٹرز کو باز رکھا جائے اور سیاستدانوں کو عہدہ اور اقتدار کی لالچ میں پارٹیاں بدلنے سے روکا جاسکے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی منتخب ممبر اگر پارٹی سے انحراف کرے تو اس بنیاد پر اسے متعلقہ ایوان کے لیے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ کسی معاملہ پر ایوان میں ووٹنگ کے وقت اگر کوئی رکن اپنی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف اور پیشگی اجازت حاصل کئے بغیر ووٹ ڈالے یا رائے دہی سے احتراز کرے تو اسے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

اینٹی ڈیفکشن ایکٹ کا اہم نکتہ یہ ہے کہ کوئی پارٹی کی عددی طاقت کا دو تہائی حصہ اگر انحراف کرنا چاہے تو اُن کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بلاشبہ اس نکتہ کو مصلحتاً قانون کا حصہ بنایا گیا ہوگا تاکہ عوام اور سرکاری خزانہ پر ضمنی چناو کا بوجھ نہ پڑے اور پارٹی میں غالب رائے کو قبول کیا جائے۔ لیکن گزشتہ پانچ سال سے قانون انسداد انحراف کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں سوائے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی (ٹی آر ایس) ہر پارٹی کے منتخب ارکان کو لالچ دے کر یا کسی نہ کسی طریقہ سے انحراف کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ تو جگ ظاہر ہے کہ سرگرم سیاست کا اخلاقی معیار پستی میں چلا گیا ہے۔ کیا نظریہ، کیا اُصول، کیا ٹریک ریکارڈ.... کچھ بھی دیکھے بغیر لیجسلیٹرز بس اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنی پارٹی اور اُن کے منتخب کرنے والے عوام کا مذاق بنا رہے ہیں۔

قومی سطح پر بی جے پی خاص طور پر مغربی بنگال کے بشمول لگ بھگ ہر ریاست میں لیجسلیٹرز کو انحراف کی ترغیب دے رہی ہے۔ حالیہ لوک سبھا الیکشن کی انتخابی مہم میں تو حد ہوگئی جب وزیراعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال کے جلسہ میں چیف منسٹر ممتا بنرجی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ”دیدی! آپ کے 40 ایم ایل ایز مجھ سے رابطے میں ہیں۔ الیکشن کے بعد ایسا نہ ہو کہ آپ کا اقتدار ختم ہوجائے!“ اس قسم کی باتیں وزیراعظم ہند کے شایان شان ہرگز نہیں ہیں۔ لیکن آج ملک کا ماحول ایسا کہ برسراقتدار پارٹی اور قائدین کی تنبیہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

تلنگانہ میں چیف منسٹر کے سی آر بھی بی جے پی کی روش پر چل پڑے ہیں۔ وہ بھی کانگریس کو حددرجہ نقصان پہنچاتے ہوئے عملاً بے اثر بنا دینا چاہتے ہیں۔ کیا جمہوریت میں ایسی صورتحال ٹھیک ہوسکتی ہے جہاں کوئی اپوزیشن ہی نہ ہو اور برسراقتدار پارٹی من مانی کرتی رہے؟ اس لئے اب اینٹی ڈیفکشن ایکٹ میں ایک اور اہم ترمیم ناگزیر ہوگئی ہے۔ یہ ترمیم ایسی ہونا چاہئے کہ سب سے پہلے دو تہائی عددی طاقت کی شرط حذف کردی جائے۔ چنانچہ ایک لیجسلیٹر ہو کہ زیادہ وہ سب انحراف کے ساتھ ہی نااہل ہوجائیں اور اُن کو اپنی پسند کی نئی پارٹی کے Form-B (ال معروف B-Form) پر دوبارہ چناو لڑنا ہوگا۔


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: