ہندوستان میں بے روزگاری بہت بڑا مسئلہ بن کر اُبھر آیا ہے۔ اعداد و شمار پر مبنی حالیہ انکشاف کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ 45 سال میں سب سے اونچی ہوگئی ہے۔ نریندر مودی نے سال 2014 میں اقتدار کے حصول سے قبل متعدد وعدے کئے تھے جن میں سالانہ دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ نمایاں رہا۔ تاہم، مودی حکومت کی پوری پہلی میعاد گزر گئی، یہ وعدہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ پانچ سال کی مودی زیرقیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) حکمرانی میں مرکزی حکومت محض چند لاکھ نوکریاں پیدا کرپائی۔
ایسا نہیں کہ ملک میں بے روزگاری دور کرنے کی ذمہ داری صرف اور صرف مرکز پر عائد ہوتی ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتدار پر قبضے کی خاطر جو غیرسنجیدہ وعدے کردیئے وہ قابل گرفت بات ہے۔ بہرحال اس معاملے میں ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں ( یو ٹی ) کا بھی نمایاں رول ہونا چاہئے کیوں کہ بے روزگار افراد عملی طور پر تو کسی نہ کسی ریاست یا یو ٹی کے متوطن ہوتے ہیں۔ وفاقی طرز حکومت کی بناءمرکز کی ذمہ داری عمل اور نگرانی دونوں طرح کی ہوتی ہے۔
ہندوستان کو اس مرحلے پر بے روزگاری دور کرنے کے لیے سعودی عرب کے طرز کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جہاں تقریباً ایک دہا قبل سعودی نوجوانوں کو روزگاردینے کی اسکیم Saudization لاگو کی گئی جس کے تحت تمام سعودی کمپنیوں اور اداروں پر لازم کردیا گیا کہ اپنی افرادی قوت میں مخصوص سطح تک لازماً سعودی شہریوں کو بھرتی کریں۔ کچھ اسی طرح کی اسکیم ہندوستان بھر میں شروع کرنے کی ضرورت ہے ، ورنہ یہ تشویشناک بے روزگاری کبھی نہ گھٹے گی۔
انڈیا میں سرکاری اور خانگی کمپنیوں اور اداروں کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی افرادی قوت میں کم از کم 30 فی صد حصہ بے روزگاروں کے ذریعے بھرتی کریں۔ اسی طرح نئے شروع ہونے والے کمپنیوں اور اداروں کو اس شرط کے ساتھ رجسٹر کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین میں کم از کم 15 فی صد حصہ کی بھرتی بے روزگار افراد کے ذریعے کریں۔ اس معاملے میں حکومتی حکام کو کڑی تنقیح کرنا پڑے گا۔ ورنہ ہندوستان جیسے ملک میں جو رشوت کے معاملے میں خراب ریکارڈ رکھتا ہے، اگر بے روزگاری دور کرنے کی اسکیم بھی رشوت ستانی کی نذر ہوجائے تو پھر اصل مقصد فوت ہوجائے گا!


మరింత సమాచారం తెలుసుకోండి: